داعشی خوارج کے جرائم کی کوئی حد نہیں اور دنیا کے ہر کونے میں اس گروہ کے ظلم کی نشانیاں اور اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا ظلم و ستم بے گناہ انسانوں کی قسمت پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔
جب داعش نے شام میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو تہہ تیغ کیا، تو اس کے بعد انہوں نے عراق میں بھی اپنے ناپاک قدم رکھے اور ساتھ ہی بین النہرین (رافدین کے ممالک) میں بھی اپنے جبر و استبداد کو جاری رکھا۔
۲۰۱۴ء سے پہلے، بغدادی خوارج، جو اُس وقت ’’اسلامی ریاست عراق‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے، امریکی اور عراقی افواج کے ساتھ خاص طور پر صوبہ انبار میں طویل جنگوں کے بعد کسی حد تک محدود ہو چکے تھے۔
لیکن ۲۰۱۱ء میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے ساتھ ہی اس گروہ کو دوبارہ منظم ہونے اور پھیلنے کا موقع ملا۔ داعش کی ترقی کے پیچھے کوئی عوامی مقبولیت نہیں تھی، بلکہ یہ قوت، جبر اور خوف کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔ وہ لوگوں کو اسلحے کے سائے تلے اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کرتے تھے۔
موصل پر قبضہ اور اسے قتل و غداری کا مرکز بنانا:
۱۰ جون ۲۰۱۴ء کو داعش نے ایک زوردار اور جامع حملے کے ذریعے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا۔ یہ شہر دو ملین سے زائد آبادی کا حامل تھا اور نینویٰ صوبے کا مرکز تھا۔
حملے کی تفصیلات: یہ حملہ شہر کے اطراف سے شروع ہوا اور تیزی سے شہر کے اندر تک پھیل گیا۔ داعش کے جنگجوؤں کی تعداد کا اندازہ ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ افراد کے درمیان لگایا گیا تھا۔
اگرچہ عراقی فوج کے پاس جدید ہتھیار اور ساز و سامان موجود تھا، لیکن ان میں لڑنے کا جذبہ موجود نہ تھا، اور زیادہ تر سپاہیوں نے بغیر لڑے شہر چھوڑ دیا۔
حکومتی فورسز کی اس پسپائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور اسلحہ سمیت جدید جنگی سامان داعش کے ہاتھ لگ گیا۔
موصل کے سقوط کی اہمیت:
۱۔ عسکری پہلو:
داعش نے موصل پر قبضہ کرکے بھاری اسلحہ اور اہم مالی وسائل حاصل کرلیے۔ شہر کے مرکزی بینک کو لوٹ کر انہیں ایک زبردست مالی طاقت ملی، جس کی مدد سے انہوں نے مزید علاقوں پر قبضہ جمایا۔
۲۔ سیاسی پہلو:
اس سقوط نے نوری المالکی کی حکومت کی شدید کمزوری کو بے نقاب کیا۔ اسی وجہ سے اندرونی اور بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہوا تاکہ حکومت میں تبدیلی آئے۔
۳۔ تبلیغاتی پہلو:
۲۹ جون ۲۰۱۴ء کو داعش نے موصل کے جامع النوری مسجد میں اسلامی خلافت کا اعلان کیا۔ ابوبکر البغدادی بھی پہلی بار یہیں عوامی طور پر منظرِ عام پر آیا۔
۴۔ سیکیورٹی اور انسانی پہلو:
شہر پر قبضے کے بعد ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا۔ مذہبی اقلیتوں جیسے ایزدی، عیسائی اور شیعوں کو یا تو قتل کر دیا گیا، یا وہ فرار ہونے پر مجبور ہوئے، یا زبردستی بے دخل کیے گئے۔
موصل کے سقوط کے بعد:
موصل پر قبضے کے فوراً بعد، داعش نے تیزی سے عراق کے دیگر صوبوں پر بھی اپنا کنٹرول قائم کیا، جیسے نینویٰ، صلاحالدین، دیالہ اور انبار۔
اہم شہروں میں سے: تکریت، فلوجہ اور رمادی جیسے شہر بھی مختصر وقت میں داعش کے ہاتھ آ گئے۔
اپنے عروج کے دور میں، داعش نے عراق کے تقریباً ایک تہائی علاقے پر قبضہ جما رکھا تھا۔
موصل میں جنگ کا اختتام:
جولائی ۲۰۱۷ء میں ایک خونریز اور ۹ ماہ کی طویل جنگ کے بعد، عراقی فوج نے امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کی حمایت سے، بالآخر موصل کو داعش کے قبضے سے آزاد کرالیا۔ یہ جنگ شدید انسانی نقصان اور تباہی کا باعث بنی۔
نوٹ:
موصل کی جنگ کے اَن کہے پہلو اور خفیہ حقائق، ان شاء اللہ، اس سلسلے کے آئندہ حصے میں بیان کیے جائیں گے۔