داعش کبھی بھی افغان عوام پر حکمرانی نہیں کرسکتی | تیسری قسط

علی انصار

حکمرانی عوام میں نفوذ اور مقبولیت کے معنی بھی رکھتی ہے، حکمرانی صرف لوگوں اور زمین پر اختیار اور اقتدار کا مفہوم نہیں ہے؛ داعش نہ صرف یہ کہ افغان عوام پر حکمران بننے کے قابل ہے بلکہ وہ قوموں کے درمیان نفوذ اور مقبولیت بھی حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی حوالے سے ہم نے داعش کی وحشتوں پر بات کی تھی، جس میں پچھلی قسط میں ہم نے شام میں داعش کی کچھ وحشتوں کا ذکر کیا، یہاں افغانستان میں داعش کی وحشیانہ کاروائیوں اور بربریت پر بات کریں گے۔

ننگرهار میں داعش کے وحشتیں:

داعش ۲۰۱۵ء کو ننگرهار میں وجود میں آئی، ننگرهار علم اور ثقافت کا شہر ہے جس کی ایک طویل تاریخی اور ثقافتی پس منظر ہے۔ داعش نے اپنے ظہور کے ساتھ ہی ننگرهار کے مختلف اضلاع، علاقوں اور مختلف دیہاتوں میں جرائم کا آغاز کیا، مجاہدین کے خلاف کھڑے ہوئے اور عام شہریوں کا قتل عام شروع کیا۔

داعش نے ننگرهار کے مشہور اور جید علماء کرام کو شہید کیا، ان میں چپرہار ضلع کے للمی علاقے کے معروف دینی عالم مولوی فاروق شامل ہیں، جنہیں شہید کردیا گیا۔ مولوی فاروق کی شہادت سے چند دن قبل ہی اسی ضلع کے کنڈیباغ علاقے کے ایک اور معروف عالم دین مولوی عبد الرحمن اور علاقے کے ایک اور مشہور عالم و امام مولوی حزب اللہ کو بھی شہید کر دیا تھا۔ اسی طرح ننگرهار کے رودات ضلع کے اخون گاؤں کے دینی عالم اور خطیب مولوی عبد الصمد کو اغوا کیا گیا اور بعد میں شہید کردیا گیا۔

اپنے ناپاک وجود کے ابتداء میں ہی تئیس گھروں کو آگ لگائی، پہلے گھروں کو آگ لگاتے پھر معصوم بچوں کو دوٹکڑوں میں تقسم کرتے، سفید ریش اور نوجوانوں کو ذبح کرتے یا پھر انہیں بموں سے اڑاتے، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو تاوان کے لیے اغواء کرلیتے اور بعد میں اپنی وحشی کاروائیوں میں استعمال کرتے یا پھر بربریت سے انہیں شہید کردیتے۔

داعش نے صرف ننگرهار کے اچین ضلع میں ۶۰۰ افراد کو شہید کیا تھا، یہ بات جمہوری ادارے کے اچین ضلع کے حکام نے بتائی، یہ صرف وہ تعداد ہے جو میڈیا تک پہنچی تھی۔ ضلعی حکام کے مطابق، داعش نے اچین ضلع میں تین بڑے قید خانے قائم کیے تھے جہاں عام شہریوں، بچوں اور خواتین کو اغوا کیا گیا اور خوفناک تشدد کے بعد انہیں شہید کردیا گیا۔ ان قید خانوں میں ۱۳۰ صرف دینی علماء، قبائلی بزرگوں اور دیگر اہم شخصیات کو اغوا کرکے قید کیاگیا تھا۔

داعش نے اچین ضلع میں معصوم لڑکیوں کو اغوا کیا اور پھر اپنے جنگجوؤں سے زبردستی ان کے نکاح کرائے، یہ داعش کی وحشت کی ایک چھوٹی سی مثال تھی۔ اچین اور چپرہار اضلاع کے علاوہ، داعش نے پچیراگام ضلع کے گاؤں میں بھی عام قتل عام شروع کر دیا تھا، اس ضلع کے بہت سے گھروں کو بھی جلا دیا تھا۔ ننگرهار کے اچین، چپرہار، پچیراگام، توره بوړه، ہسکہ مینه، شینواری اور کوٹ اضلاع داعش کی وحشتوں اور بربریت کے گواہ ہیں۔

داعش نے ۲۰۱۶ء کو ننگرهار کے کوٹ ضلع میں ایک عوامی اور قبائلی جرگے میں دھماکہ کیا جس میں درجنوں شہری شہید ہوئے، ۲۰۱۷ء کو ان وحشیوں نے نازیانو کے علاقے میں ایک عوامی اجتماع میں دھماکہ کیا اور درجنوں افراد کو شہید کردیا۔ ۲۰۱۹ء کو ہسکہ مینہ کی ایک مسجد میں دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں درجنوں نمازی شہید ہوئے۔

ننگرهار میں داعشی اکیلے اور تنہا نہیں تھے بلکہ وہاں امریکی افواج اور جمہوری حکومت ان کے کھلے اتحادی تھے۔ داعش کے ساتھ کئی سال تک امارت اسلامی کے جانباز مجاہدین نے دلیرانہ مقابلہ کیا، جن میں سے بیشتر کو ہلاکت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور آخرکار ننگرهار کے تاریخی، علمی اور ثقافتی شہرمیں داعش کو دفن کردیاگیا اور اس سرزمین کو ان گمراہوں سے صاف کردیا گیا۔ یہ ننگرهار میں داعش کی وحشتوں کی چند مثالیں تھیں، اگلی قسطوں میں ہم افغانستان کے دیگر علاقوں میں داعش کی وحشتوں پر بات کریں گے۔ ان شاء اللہ

Author

Exit mobile version