داعش کس طرح کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے؟

یحیی زہار

داعش ایک انتہاپسند اور غالی تحریک ہے جو ۲۰۱۳ء کو عراق میں ابوبکربغدادی کی قیادت میں نمودار ہوئی، یہ گروہ حکومت کے قیام کے لیے مخصوص، پر تشدد اور وحشت بھرا نظریہ رکھتے ہیں، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے قبضے کیے ہوئے علاقوں میں مکمل اسلام کے نام پر ایک ایسا نظام حکومت تشکیل دیں جس کی تمام پالیسیاں اور قوانین ان کے انتہاپسند نظریات کے مطابق ہوں۔ یہ نقطہ نظر اسلام کی اصل اور متوازن تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

داعش اسلام کے احکامات کو صرف اپنی غلو پر مبنی تشریح اور تعبیر کے مطابق نافذ کرناچاہتا ہے، یہ گروہ یقین رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو مطلق اختیار ہونا چاہیے اور عوامی مشورہ، جو ان کے مطابق "جمہوریت کے مشابہ” ہے، اسلامی حکومت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

اسی طرح داعش ایک ایسی حکومت کے قیام کی کوشش میں ہے، جس میں ان کے من مانی تعبیر کے مطابق شریعت کے قوانین لوگوں پر نافذ کیے جائیں، جیساکہ مخالفین کا قتل، جعلی خلافت کا تحفظ اور داعشی نظریات کا فروغ۔

داعشی موجودہ فرضی سرحدات کو ختم کرنا اپنی حکومت کی ایک اہم ذمہ داری سمجھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک متحد "اسلامی امت اور متحد خلافت” کے زیر سایہ اکٹھا کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کریں جو کہ ایک وسیع ریاست کے قیام کی صورت میں ہو۔ اس عمل کا مقصد دوسرے اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ داعش کا یہ نظریہ پوری اسلامی دنیا کو اپنے اثر و رسوخ میں لانے کے لیے دہشت و افراتفری سے بھردے گا۔

داعش ایک ایسی ریاست کے قیام کی کوشش کر رہی ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جنگ، طاقت اور خوف کو پھیلانے پر زور دیتی ہو، یہ گروہ یقین رکھتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ان کی نام نہاد خلافت کی حمایت اور اس خلافت کے دفاع میں لڑنا ان پر فرض ہے؛ داعش کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کے نظریات اور خلافت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کے لیے وہ طاقت کے تمام ذرائع استعمال کرنے کو تیار ہیں، چاہے اس میں دہشت گردی اور ظلم بھی شامل ہو۔

داعش کی حکومت ایک ایسے اقتصادی نظام کا قیام چاہتی ہے جو ان کے سخت گیر تعبیر کے مطابق اسلامی معیشت کے اصولوں پر مبنی ہو، لیکن عملی طور پر آج بھی ان کی زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرائع سے آتی ہے، جیسے کہ تیل کی اسمگلنگ، بھتہ خوری اور لوٹ مار۔

داعش کی حکومت تعلیم کے شعبے میں بھی اپنے خاص نصاب کو نافذ کرے گی، جو ان کے انتہاپسند نظریات اور جنگی مہارتوں کی تعلیم کو ترجیح دے گا۔ اس نصاب میں جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے مضامین کو کم اہمیت دی جائے گی، کیونکہ داعش کا نظریہ ہے کہ صرف اپنے انتہاپسند عقائد اور جنگی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، اس طرح وہ معاشرتی ترقی اور جدیدیت کے خلاف ہیں اور اپنی حکومت میں صرف وہ تعلیمات اور مہارتیں اہم سمجھتے ہیں جو ان کے انتہاپسند ایجنڈے کے لیے ممد و معاون ہوں۔

داعشیوں کی حکومت مذہبی تنگ نظری اور تکفیری نظریے پر مبنی ہو گی، داعشی صرف اپنی تفسیر کو اسلام کی درست تفسیر سمجھتے ہیں اور ان تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں جو ان کے نظریات سے متفق نہیں ہوں۔ وہ اپنے مخالفین کو مرتد سمجھتے ہیں اور ان کی قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔

داعش کی حکومت ان علاقوں میں جہاں ان کا کنٹرول تھا، انتہائی ظالمانہ اصولوں اور جبر پر مبنی تھی، ان علاقوں میں داعش نے عوامی وسائل کا ناجائز استعمال کیا؛ انہوں نے تیل اور دیگر قدرتی وسائل کی پیداوار اور فروخت پر مکمل قبضہ کر لیا تھا اور لوگوں پر بھاری ٹیکسوں کا پابند کیا۔ اس کے علاوہ داعش نے تاجروں سے اضافی رقم وصول کی اور اقتصادی ذرائع کو اپنے انتہاپسند مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس طرح داعش نے مقامی لوگوں کو شدید اقتصادی اور سماجی دباؤ میں مبتلا کیا اور اپنی حکمرانی کے تحت انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔

اسی طرح داعشی حکومت خوف اور دہشت پر مبنی تھی، انہوں نے عوام کو ڈرانے کے لیے وحشیانہ کارروائیاں عوامی طور پر کیں اور انہیں میڈیا پر نشر کیا تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرسکیں اور خود کو طاقتور ظاہر کرسکیں۔

عام طور پر داعش کی حکومت ایک ایسا نظام ہے جو اسلام کے اصلی اصولوں اور اقدار سے متصادم ہے، اسلام کے اکثر معتبر علمائے کرام اور مسلمانوں کی اکثریت داعش کے نظریات اور اعمال کی شدید مخالفت کرتی ہے اور انہیں اسلام کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے کہ داعش کے اقدامات اور ان کا انتہاپسندانہ نظریہ اسلام کے حقیقی پیغام سے بالکل متصادم ہے۔

Author

Exit mobile version