جس دنیا میں ہم آج زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ عجیب و غریب واقعات اور تبدیلیوں کی شاہد ہے؛ ایسے واقعات جن کی حقیقت کو پرکھتے ہوئے انسان حیران رہ جاتا ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کا تصور چند دہائیاں قبل کے انسان کے لیے ناممکن اور ناقابل فہم تھا۔
ایسی دنیا میں جسے "فاسٹ فوڈ دور” کہا جاتا ہے، ہر چیز تیزی سے تیار ہوتی ہے اور فوری انتظامات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس غیر مستحکم دنیا میں زندگی گزارنا آفات اور مصیبتوں سے خالی نہیںے۔
اس کے ساتھ ساتھ، میڈیا کا کردار بھی باعث تشویش ہے۔ میڈیا سماجی طبقات، خاص طور پر نوجوان نسل، کے اذہان کو گمراہ کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا میں، داعش جیسے دہشت گرد گروہوں نے بھی ان مواقع سے فائدہ اٹھایا، ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، انہوں نے بھی اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کر لی اور آج کے دور کے مطابق میدان میں نکل آئے۔
داعش جیسے دہشت گرد گروہوں نے اعلیٰ معیار کی ویڈیوز بنانے کی صلاحیت حاصل کی اور اس کے ذریعے وہ کوشش کرتے ہیں کہ مخلص اور غیر جانبدار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کریں اور ان کے خالص جذبات کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ یہ واضح ہے کہ داعش نے اس میدان میں کس قدر وسیع فائدے حاصل کیے ہیں اور کس طرح مکاری اور دھوکے سے بے شمار لا علم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔
البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آج کے دور کی سہولیات خود شر و فساد کی جڑ ہیں، بلکہ ان سہولیات کا غلط استعمال اور برے مقاصد کے لیے ان کا استعمال ہی انہیں شر و فساد کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ داعش کا وجود، جسے آج معاشرے میں شر و فساد کی حقیقی ماں سمجھا جاتا ہے، اس دور کی فریب دینے والی سہولیات سے فائدہ اٹھا کر کسی حد تک اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے قریب پہنچ گئی۔
داعش کس طرح لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں، کو اپنی طرف راغب کرتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ داعش نے پراپیگنڈہ ذرائع کے ذریعے بڑی مہارت سے لوگوں کو بہکایا اور بہت سے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ورچوئل دنیا میں خوبصورت تصویروں اور جذباتی و خیالی کلپس کے ذریعے نوجوانوں کے لیے طاقت کی ایک علامت بن گئی۔
اس رجحان نے، جو ان کے برے اعمال سے پہچانا جا سکتا ہے، مکاری اور دھوکہ دہی کے طریقے بخوبی سیکھ لیے تھے۔ داعش درحقیقت انہی طریقوں سے ایک طاقتور قوت تشکیل دینا چاہتی تھی اور اپنی جنگوں کے لیے سپاہی تیار کرنا چاہتی تھی۔
۱- ویڈیوز کی تیاری اور نشر:
داعش نے فنی ماہرین کی مدد سے بہت لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا۔ یہ گروہ نفسیاتی آپریشنز (PsyOps) اور میڈیا وار کے ذریعے میدان میں اتری تھی، اور جب تک ان کا اصل چہرہ دنیا پر عیاں ہوا، بہت سے نوجوان ان کے دھوکے کا شکار ہو چکے تھے۔ داعش نے خصوصاً ٹویٹر اور فیس بک پر ورچوئل دنیا سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سماجی خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا۔
وہ اپنی تیار کردہ کلپس اور ویڈیوز کے ذریعے ایک طرف عام لوگوں میں خوف پھیلانا چاہتے تھے اور دوسری طرف مایوس اور احساس کمتری میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد اپنے لشکر میں بڑھانا چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش توجہ کی پیاسی تنظیم تھی، جو اعلیٰ معیار کی، چونکا دینے والی ویڈیوز تیار کرنے کے ذریعے خبروں میں رہنا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتی تھی، تاکہ اسی راستے سے نئے سپاہی اور احساس کمتری کے شکار لوگ اپنی طرف راغب کر سکے۔
۲- جذباتی تحاریر کی اشاعت:
اگلے مرحلے میں داعش نے جذباتی تحاریر شائع کرنے اور ماہر لکھاریوں کو ملازمت دینے سے ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کیا جو صحافتی میدان میں سرگرم تھے۔ داعش مختلف معلومات کو اکٹھا، منظم اور تدوین کر کے وقتاً فوقتاً بہت سے رپورٹس یکجا کر کے عام کرتی تھی، تاکہ ایسے مضامین کے شوقین افراد کو اپنی طرف کھینچ لے اور انہیں اپنے کنٹرول میں لے سکے۔
جذباتی تحاریر شائع کرنا اور ثقافتی شعبے میں پاکیزہ جذبات سے فائدہ اٹھانا، داعش کی میڈیا وار کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا تھا۔
۳- آن لائن اشاعتیں:
داعش نے آن لائن اشاعتوں اور کچھ تعلیمی کلاسز کا اہتمام کر کے ایسا منظم نظام تیار کیا تھا کہ ورچوئل سامعین کا ذہن تھوڑے ہی عرصے بعد ان کے فساد کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتا تھا۔ اس طرح وہ نوجوانوں اور عالمی برادری کے کچھ افراد کو اپنے خفیہ اور برے مقاصد کی طرف رہنمائی کر سکتے تھے۔
یہ تخریب کار اور دہشت پھیلانے والی تحریک اپنی آن لائن اشاعتوں کے میدان میں اتنی سرگرم ہو گئی تھی کہ مختلف میڈیا چینلز میں بھی اس نے جگہ بنا لی۔
جاری ہے۔۔۔