شہید خلیل الرحمن حقانی بن محمد امین، پکتیا کے ضلع گردی سیڑھی کے کنڈو نامی گاؤں کے رہائشی تھے، ان کے والد علاقے کی معروف شخصیت اور دینی عالم تھے، جن کا علاقے میں خاص اثر و رسوخ تھا۔
خلیل الرحمن تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، ان کے بڑے بھائی تعلیم میں مصروف تھے، یہی وجہ تھی کہ بچپن میں وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے؛ وہ چھوٹے تھے، اس کے باوجود گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ مویشی بھی پالتے تھے؛ ایک دن وہ مویشیوں کو چَرانے گئے تھے کہ گھر سے خبر آئی کہ جلدی سے گھر آجائیں، جب وہ گھر واپس پہنچے، تو انہیں خبر ملی کہ ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اور اس کے ساتھ ہی بچپن سے ہی ان پر گھر کے تمام تر معاملات کی ذمہ داری آں پڑی تھی۔
حاجی خلیل الرحمن گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی شریک رہتے تھے، جب کمیونزم کے آثار ظاہر ہونے لگے، تو اس خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس علاقے کو ہر قسم کے شر، فتنہ اور کفر سے بچانے کے لیے جدوجہد کریں گے۔
کمیونزم کے خلاف ان کی کوششوں میں ایک اہم کوشش وہ تھی جس میں وہ اپنے گرفتار شدہ دوستوں کو جیل سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے رہے؛ تاہم اس وقت کے حکومتی نظام (داود خان) کو ان کی سرگرمیوں کا پتا چلا اور وہ مجبور ہوگئے کہ ۱۳۵۴ھ ش میں ہجرت کریں۔
داود خان کی ہلاکت کے بعد، حاجی خلیل الرحمن نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا اور مسلسل کمیونزم کے خلاف جہاد کو جاری رکھا؛ انہوں نے اپنے وطن سے کمیونزم کا صفایا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مجاہدین کے اقتدارمیں آنے کے بعد انہوں نے کسی بھی عہدے یا منصب کی خواہش اور تمنا نہیں کی، پھر جب انہوں نے اپنے وطن کی حالت میں اورسنگین بحران دیکھا، تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے ساتھ مل کر، ملا محمد عمر مجاہد صاحب رحمہ اللہ کی قیادت میں جہاد کا آغاز کرڈالا۔ انہوں نے امارت اسلامی کو مضبوط کیا اور ملک کو دوسری بار فتنوں سے بچایا۔
وہ ابھی آرام کی سانس نہیں لے پائے تھے کہ امریکی افواج نے حملے شروع کردیے اور پہلی بار شہید حاجی کے گھر کو اپنا نشانہ بنایا؛ ان کے خاندان کے تیرہ افراد شہید ہوئے اور انہیں دوبارہ ہجرت کرنا پڑی، اس بار دشمن زیادہ طاقتور تھا اور وہ خود تھک چکے تھے، لیکن یہ تھکن انہیں مزید مضبوط بنا گئی، انہوں نے امریکی قبضے کے خلاف بیس سال بھرپور جدوجہد کی اور ان کے خاندان کے اسی ۸۰ افراد شہید ہوئے۔
امارت اسلامی کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں وزارت برائے پناہ گزین ومہاجرین مقرر کیا گیا؛ پناہ گزینوں کے حوالے سے انہوں نے تین سال تک ایسی خدمات انجام دیں کہ جس سے ملک کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا۔
کمونیزم کا خاتمہ، فتنوں کا مٹانا، امریکی قبضہ ختم کرنا اور اپنے وطن کے لیے بے مثال خدمات انجام دینا ان کی عظمت کی نشانی ہے۔ حاجی صاحب تقبله اللہ، بالاخر اس آرزو تک پہنچے جس کی تکمیل کے لیے وہ اور ان کے ساتھی جدوجہد کر رہے تھے، وہ شہید ہو گئے اور حضرت حمزہ کے راستے پر چلتے ہوئے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے۔ تقبله اللہ۔
حاجی صاحب صرف ایک مجاہد نہیں تھے، بلکہ وہ ایک بہترین سیاستدان، قوم کے رہنماء اور ملت کی تعمیر کرنے والے انسان تھے؛ جب بھی اسلام و وطن کے لیے قربانی کی ضروت پڑی، وہ ہمیشہ صف اول میں کھڑے نظر آئے؛ وہ اور ان کا خاندان ہر لحاظ سے معاصر اسلامی تحریکوں کے صف اول میں تھے۔ سیاسی بصیرت، قیادت، علمیت اور قربانی کے حوالے سے ان کا کوئی بھی ہم پلہ نہیں تھا، شہید حاجی صاحب اپنے خاندان کے شہداء میں سے ۸۱ ویں شہید تھے جو اس خاندان کی جانب سے پچاس سالہ عرصے میں اللہ کی راہ میں پیش کیے گیے۔
یہی خاندان تھا جو کمونیزم، شر و فساد، مغربی حملوں اور جمہوریت کے خلاف میدان جنگ میں موجود تھا اور انہوں نے ہی وقت کے نظاموں کے خلاف ہمیشہ اپنے اصولوں کا دفاع کیا تھا، یہی لوگ تھے جو اسلامی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے خاندان نے شہادت کی خبر پر غم اور مایوسی دکھائی نہ ہی وہ اس پر نادم ہیں بلکہ ان کا حوصلہ اور عزم مزید مضبوط ہوا؛ ان کے ذہن میں یہ سوچ راسخ ہوئی کہ یہ سرزمین ابھی بھی مزید قربانیوں کی محتاج ہے اور خوارج کے وجود سے اس خطے کو پاک کرنا از حد ضروری ہے۔
آج جلال رحمہ اللہ کی روح سکون میں ہوگی کیونکہ ان کا چھوٹا بھائی ان کے قریب پہنچ گیاہے، آج اسامہ رحمہ اللہ کی روح خوش ہوگی کیونکہ وہ اپنے ہجرت کے ساتھی کے قریب پہنچ چکے ہیں، آج کفر بھی خوش ہوگا کیونکہ ان کا بڑا ہدف جاہل و بے علم گروہ (خوارج) کے ہاتھ پورا ہو چکا ہے۔
میرے بزرگ اور چھوٹے تمام شہید ہو کر قبرستان پہنچے
نسل در نسل یہ فن میرے خاندان میں منتقل ہوا ہے