حالات حاضرہ پر تبصرہ
جب داعش کسی ملک میں حملے کی منصوبہ بندی کرتی ہے، تو امریکہ بہت جلد اس کے بارے میں اس ملک کو معلومات دے دیتا ہے، لیکن یہ معلومات عمومی ہوتی ہیں اور ایسی نہیں ہوتیں جس سے حملے کو ناکام بنانے کے لیے کوئی فائدہ حاصل ہو سکے۔ ماسکو حملے کے حوالے سے بھی امریکہ نے اپنے شہریوں کو وارننگ جاری کی تھی اور روس کو بھی اس حوالے سے عمومی معلومات فراہم کی تھیں۔ لیکن حملے کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کر دیا کہ افغانستان میں داعش کا ایک گروپ اس طرح کا حملہ ترتیب دینے کی کوشش میں تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کو اتنے عرصے سے اس طرح کے حملے کی اطلاع تھی، تو پھر یہ معلومات اس نے روس اور افغانستان کے ساتھ شریک کیوں نہیں کیں؟ دوسرا اس حقیقت کے پیچھے کیا راز ہے کہ امریکہ کو داعش کے حملوں کی ہر وقت اطلاع ہوتی ہے؟
محققین کی نظر میں، دنیا کے بہت سے انٹیلی جنس اداروں کا خیال ہے کہ جب افغانستان، عراق اور دیگر دنیا کے جہادی گروہ امریکہ کے خلاف سخت جدوجہد میں مصروف تھے، عرب بہار کے علاقوں میں بھی نئے جہادی گروہوں کا ظہور ہوا۔ مغرب اس پر خوفزدہ ہو گیااور امریکہ نے ان جہادی گروہوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا حربہ آزمایا اور تکفیری فکر کو، جو ہمیشہ سے اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتی آئی ہے، بلواسطہ طور پر کھڑا کیا اور جہادی گروہوں کے خلاف استعمال کیا۔ اسی حوالے سے نام نہاد دولت اسلامیہ یا(IS) کو آگے لایا گیا اور بہت سے علاقے ان کے لیے خالی چھوڑ کر زمین ہموار کی گئی کہ ڈرامائی انداز میں وہ یہ علاقے فتح کر لے، شہروں کو اپنے قبضے میں کرلے اور ۸۰ ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ اپنے کنٹرول میں لےآئے اور اس طرح سے اسے مشہور کیا جائے۔
اس نام نہاد دولت اسلامیہ کے ذریعے سے شام کا جہاد ناکام کیا گیا، حفتر کو لیبیا میں بالادستی دلائی گئی اور افریقہ میں بھی جہادی تحریکات کو سخت مشکلات اور چیلنجز میں مبتلا کر دیا گیا۔ افغانستان میں امارت اسلامیہ کے لیے بھی سر دردی پیدا کر دی گئی۔ چونکہ داعشی منصوبہ افغانستان میں امریکہ کی مرضی کے مطابق نتائج نہ دے سکا اس لیے امریکہ امارت اسلامیہ کو روکنے میں ناکام ہو گیا اور بالآخر مجبور ہو گیا کہ افغانستان سے نکل جائے اور کٹھ پتلی حکومت منہدم ہو گئی۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کو کمزور کیا جائے اور خطے میں ان ممالک میں، جو امارت اسلامیہ کے ساتھ نسبتا بہتر تعلقات رکھتے ہیں، بد اعتمادی پیدا کریں اور مشکلات کا شکار کریں۔ یہی وجہ تھی کہ ماسکو حملے کے حوالے سے بہت جلد عجیب و غریب دعوے کیے اور تمام مغربی میڈیا اب تک ان دعووں کا راگ الاپ رہا ہے۔ لیکن روس نے ہوشیاری سے کام لیا اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بیان سے واضح ہو گیا کہ روسی اس حوالے سے متوجہ ہیں اور نہیں چاہتے کہ پھر سے روس کو خطے میں پھنسایا جائے۔
محققین کے مطابق اب روسی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ داعش خراسان نے اپنے مراکز افغانستان سے پڑوسی ممالک میں منتقل کر لیے ہیں۔ افرادی قوت کی بھرتی کے نئے مراکز اب تاجکستان میں ہیں۔ مالی معاونت یورپی ممالک سے کرپٹو کرنسی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حملوں کے اہداف مغربی انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں، لاجسٹک سپورٹ خطے میں مغرب کے پالتو انٹیلی جنس نیٹ ورک کرتے ہیں اور مغربی میڈیا بلواسطہ طور پر انہیں ابھارتا اور ان کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مزید داعش منصوبے کے پیچھے کارفرما قوتیں اس منصوبے سے وہ نتائج آسانی سے حاصل نہیں کر پائیں گی جس کے لیے یہ منصوبہ کھڑا کیا گیا، اور خطے کے مقامی لوگ اس کے خلاف بھرپور مذاحمت کریں گے۔