اگر ہم اسلام کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو خوارج کی حقیقت ہمیں واضح طور پر سامنے آئے گی اور مسلمانوں کے خلاف ان کی بغاوتیں، شورشیں، فتنے اور مزاحمتیں بھی مکمل طور پر پہچانی جا سکیں گی۔
خلافت راشدہ کے ابتدائی دور سے لے کر خلافت عثمانیہ تک، یہ زہریلا پودا مختلف ادوار اور مرحلوں میں مختلف ناموں سے ظاہر ہوتا رہا ہے، خاص طور پر خلافت امویہ کے دوران۔
عبدالملک بن مروان کی خلافت میں مسلمان شدید داخلی اختلافات اور جھگڑوں میں ملوث تھے، یہاں تک کہ ان داخلی شورشوں کے نتیجے میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے، خوارج نے اپنی عادت کے مطابق مسلمانوں کے اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق میں بغاوتیں شروع کردیں۔
شروع میں حجاج بن یوسف نے خوارج کی بغاوتوں کو کچھ حد تک قابو کیا، مگر جب عبدالرحمن بن اشعث کو عبد اللہ بن زبیر نے کابل بھیجا تاکہ وہ کابل کے حاکم کو حکم دے کہ اپنے رعایا سے جزیہ وصول کرے، تو اشعث نے اپنا مشن مکمل نہیں کیا، واپس آنے کے دوران اس نے بصرہ اور کوفہ میں حملے کیے اور خوارج اور کچھ دیگر گروپوں کی مدد سے لوگوں کو بیعت کرنے پر مجبور کیا۔
بغاوت کو روکنے کے لیے حجاج بن یوسف نے جنگ کا سامنا کیا اور عبدالملک بن مروان نے حجاج کی مدد کے لیے ایک اور لشکر بھیجا، 83 ھ ق میں دیر الجماجم کے علاقے میں دونوں افواج کے درمیان معرکہ ہوا، جہاں خوارج اور باغیوں کے خلاف سخت لڑائی ہوئی۔
یہ جنگ تقریباً سو دنوں تک جاری رہی، جس کے آخر میں حجاج بن یوسف کی قیادت میں امویوں کو فتح حاصل ہوئی اور اشعث کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اشعث شکست کے بعد کابل فرار ہوگیا اور وہاں رتبیل کے ماتحت پناہ گزین ہوگیا۔
حجاج بن یوسف نے رتبیل کو ایک خط بھیجا اور اس سے اشعث کی جلد از جلد حوالگی کی درخواست کی، چونکہ حجاج بن یوسف نے کافی قتلِ عام کیاتھا اوراسی صفت سے مشہور تھا اور اس خطے کے بیشتر لوگ اس کی دشمنی سے بچنا چاہتے تھے، اس لیے رتبیل نے اشعث کا سر تن سے جدا کیا اورایک تھیلی میں اسے حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دیا۔ اس طرح اشعث کی بغاوت کو کچل کر عبدالملک بن مروان نے اپنی خلافت محفوظ اور مستحکم کرلی۔