غزوات النبی ﷺ اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق | تیسری قسط

ابو ریان حمیدی

دوم: غزوہ بواط

غزوہ بواط غزوات کے سلسلے میں دوسرا غزوہ ہے، ہجرت کے دوسرے سال ربیع الاول یا ربیع الآخر کے مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اطلاع ملی کہ امیہ بن خلف کی قیادت میں قریش کا ایک قافلہ مکہ کی طرف روانہ ہو رہا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 200 سوار صحابہ کرام کے ساتھ اس قافلے پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اور بواط کے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔

اس غزوے میں سفید جھنڈا تھا اور اس کے علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے؛ چونکہ قافلہ پہلے ہی روانہ ہو چکا تھا، اس لیے اسلامی لشکر بغیر لڑائی کے مدینہ واپس لوٹ آیا۔ اس دوران مدینہ کے سرکاری معاملات حضرت سائب بن مظعون رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے، جو اسلام کے اولین و سابقین صحابہ کرام میں سے تھے۔

بواط ایک پہاڑ کا نام ہے جو مکہ سے شام کی طرف جانے والی طویل راہ پر ہے، اور مدینہ منورہ سے تقریباً 48 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

سوم: غزوہ عشیرہ

غزوہ عشیرہ کو جمہور سیرت نگاروں کے مطابق غزوات کی تسلسل میں تیسرا غزوہ شمار کیا گیا ہے۔ یہ اسلام کا تیسرا لشکر تھا، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 200 مہاجر صحابہ کرام شامل تھے، ہجرت کے دوسرے سال جمادی الاول کے مہینے میں، قریش کا ایک قافلہ جو شام کی طرف جا رہا تھا، اس کے مقابلے میں لشکر اسلام نے مدینہ منورہ سے عشیریہ کے علاقے تک کا سفر کیا۔

راستے میں ابن ازہر کے میدان میں ایک درخت کے سایے میں آرام کیا، وہاں کھانا کھایا اور نماز بھی ادا کی، پھر دوبارہ یَلیل کے علاقے میں آرام کیا اور آخرکار عشیریہ پہنچے۔

مدینہ میں حضرت ابو سلمة بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا، اور چونکہ قافلہ پہلے ہی گزر چکا تھا، اس لیے کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اسلامی لشکر نے بنو مدلج قبیلے کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا اور واپس مدینہ لوٹ آیا۔
یہی قافلہ تھا جو شام کی جانب سے مکہ جارہاتھا، مسلمانوں نے اس پر یلغار کرنے کا ارادہ کیا، جس کے نتیجے میں جنگِ بدر کا عظیم معرکہ وقوع پذیر ہوا۔

ایک شبہہ اور اس کا جواب:

ان تین غزوات میں لشکر اسلام کا مقصد قریش کے قافلوں کو روکنا تھا جو شام کی طرف جا رہے تھے یا شام سے مکہ کی طرف آ رہے تھے۔ یہاں اسلام کے مخالفین یہ شبہہ پیدا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی اور کاروباری قافلوں کو کیوں نشانہ بنایا، گویا یہ عمل وہ اسلام کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔

اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ مکرمہ سے بزور و زبردستی نکالا گیا تھا، ان کے مال و دولت، گھروں اور باغات سب کچھ ان سے چھین لیے گیے تھے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ غزوات اپنے مالوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تھے یا ان کے بدلے میں ان کا معاوضہ حاصل کرنے کے لیے، یہ کوئی نیا حملہ یا ان کے اموال پر کوئی تجاوز نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ جنگِ بدر تک جو بھی غزوات ہوئے، ان سب میں انصار کا کوئی حصہ نہیں تھا، اس میں شریک ہونے والے تمام صحابہ صرف مہاجرین میں سے تھے، کیونکہ یہ جنگ قریش اور مہاجرین مسلمانوں ہی کے درمیان تھی۔

Author

Exit mobile version