غزوات النبی ﷺ اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق! گیارہویں قسط

ابو ریان حمیدی

عمومی حملہ:

جب مشرکوں نے اپنے تین ماہر کمانڈر کھو دیے تو وہ جذباتی ہو گئے، اپنے مارے گئے سرداروں کا بدلہ لینے کے لیے بیتاب اور ان کے سینوں میں حسد کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی تھی۔

جب دو بدو لڑائی اور تین مشرکوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا، تو ابو جہل نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کہا: انہوں نے چالاکی سے کام لیا ہے، اللہ کی قسم! ہم انہیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم ان کو پاؤں سے نہ باندھ دیں۔

پھر اس نے لشکر کو عمومی حملے کا حکم دیا، عمومی جنگ شروع ہو گئی۔ مسلمانوں نے ان پر تیروں کی بارش کر دی، ان کی زبانیں اَحد، اَحد کے ذکر سے تر تھیں، وہ اپنی جگہ پر جمے کھڑے تھے۔ جب لشکرِ کفار قریب آیا، تو انہوں نے ان پر حملے شروع کر دیے اور انہیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔

رب تعالیٰ سے راز و نیاز کا تعلق:

صفوں کی ترتیب اور منظم قیادت کے بعد، لشکر کا سالارﷺ اپنے خیمے میں چلے گئے، اور آسمان و زمین کے مالک سے مناجات کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے نم آنکھوں اور چمکتے آنسوؤں کے ساتھ اپنی فوج کے لیے یوں فتح کی دعا کی:

’’اللهم أنجز لي ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام فلا تعبد في الأرض أبدا‘‘

ترجمہ: اے اللہ! جو وعدہ تُو نے مجھ سے کیا ہے، اسے پورا فرما۔ اے اللہ! اگر یہ مٹھی بھر مسلمان لوگ ہلاک ہو گئے، تو زمین پر تیری کبھی عبادت نہ کی جائے گی۔

یہ مناجات اس وقت تک جاری رہی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے سے چادر نہ گر گئی. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ چادر اٹھا کر دوبارہ آپﷺ کے کندھے پر رکھی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اب بس کیجیے، یقیناً بلند مرتبہ رب اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑی دیر کے لیے غنودگی طاری ہوئی، یہ نزول وحی کا لمحہ تھا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ابو بکر! تمہیں خوشخبری ہو، جبرائیل آ گئے ہیں، ان کا گھوڑا آگے سے گرد و غبار اٹھا رہا ہے۔

پھر آپ خیمے سے باہر تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے:

’’سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‘‘ ترجمہ: دشمن کی جماعت جلد شکست کھائے گی، اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جوش و ولولے سے لشکر کی طرف بڑھے، ایک مٹھی مٹی اٹھائی اور کفار کے لشکر کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا: ’’شاهت الوجوه‘‘ ترجمہ: برباد ہوں یہ چہرے۔

یہ مٹی ہر کافر کی آنکھوں اور نتھنوں میں جا لگی، اس واقعے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى‘‘

ترجمہ):اے نبی!) جب تم نے پھینکا، تو تم نے نہیں پھینکا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکا۔

جوابی حملے کا حکم:

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی میدان جنگ میں تشریف لے آئے تھے اور لشکر کو جوابی حملے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شدوا ‘‘یعنی ان پر حملہ کرو!

پھر آپ نے مجاہدین کو جنگ کے لیے ابھارا اور فرمایا: ’’والذي نفس محمد بيده، لا يُقاتلهم اليوم رجل فقتل صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر، إلا أدخله الله الجنة‘‘۔

ترجمہ: قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جو شخص آج دشمنوں سے لڑے، صبر و استقامت اور ثواب کی نیت کے ساتھ، دشمن کی طرف سے منہ موڑے بغیر لڑتا ہوا شہید ہو جائے، اللہ تعالیٰ اُسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔

اللہ رب العزت کی راہ میں لڑنے والے سپاہیوں کے حوصلے بلند تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سُن کر ان کا جذبہ مزید بڑھ گیا۔ انہوں نے دشمن کی شکست خوردہ اور منتشر صفوں پر شیر کی طرح حملہ کر دیا اور انہیں تتر بتر کر دیا۔

جب اُنہوں نے اپنے سپہ سالار کو زرہ پہنے ہوئے، صفوں میں موجود دیکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ آیت سنی: ’’سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‘‘

ترجمہ: جلد ہی یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔ تو اُن کا جوش اور بڑھ گیا۔

فرشتوں کا اترنا:

بدر واحد ایسا غزوہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعے فرمائی۔ ابن سعد نے عکرمہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ہم دیکھا کرتے تھے کہ کسی مشرک کا سر کٹ جاتا یا ہاتھ جدا ہو جاتا، لیکن یہ معلوم نہ ہوتا کہ وار کس نے کیا ہے۔

یہ سوال کہ ملائکہ اور فرشتوں کے نزول کی حکمت کیا تھی؟ یا پھر یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں فرشتے کیوں نازل کیے گئے؟ ان سوالات کے جوابات، ان شاء اللہ غزوۂ بدر سے حاصل ہونے والے اسباق اور عبرتوں کے بیان میں دیے جائیں گے۔

ملائکہ کے نزول کا ذکر قرآن کی آیات، احادیثِ مبارکہ اور غزوہ بدر میں شریک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال سے ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

"إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ”

ترجمہ: یاد کرو وہ وقت جب تمہارے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، پس تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، لہٰذا تم اُن کی گردنوں پر مارو، اور ان کی ہر انگلی اور جوڑ پر ضرب لگاؤ۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

’’إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ‘‘

ترجمہ: یاد کرو وہ وقت جب تم مؤمنوں سے کہہ رہے تھے، کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار نازل کیے گئے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟

اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں:

’’بَلَىٰ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ‘‘

ترجمہ: یقیناً، اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو، اور دشمن اسی وقت تم پر حملہ آور ہو، تو تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں کے ذریعے۔

احادیث میں اس واقعہ کی وضاحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک حدیث سے ہوتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

غزوہ بدر کے دن ایک انصاری صحابی ایک مشرک کے پیچھے لگے ہوئے تھے تاکہ اسے قتل کریں، اتنے میں انہوں نے ایک آواز سنی، جو کسی کے وار کرنے کی تھی، اور گھوڑے پر سوار ایک فرشتے کی یہ بات بھی سنی: ’’اقدِم حیزوم‘‘ یعنی آگے بڑھ، حیزوم! (حیزوم اس گھوڑے کا نام تھا)۔

جب انہوں نے اُس مشرک کی طرف دیکھا تو وہ منہ کے بل گرا پڑا تھا، اُس کی ناک زخمی تھی اور چہرے پر ایسا زخم تھا جیسے کسی کو چمڑے کی کوڑے (چابک) سے مارا گیا ہو۔

بعد میں وہ انصاری صحابی آئے اور یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"صدقت، ذلک مدد من السماء الثالثة”

یعنی: تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے مدد تھی، یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کی ہے۔

Author

Exit mobile version