مشرکوں کی لاشوں کو کنویں میں ڈالنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لشکرِ مکہ کے ۲۴ مقتولین کی لاشیں بدر کے ایک کنویں میں پھینکی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی جنگ میں فتح حاصل کرتے تو تین دن اسی میدان میں قیام فرماتے۔ جب بدر کے معرکے کا تیسرا دن ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے جہاں مشرکوں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں۔ آپ نے ہر ایک کو اس کے اور اس کے باپ کے نام سے پکارا اور فرمایا:
’’هل وجدتم ما وعد ربكم حقاً؟ فإني وجدت ما وعدني ربي حقاً‘‘
ترجمہ: کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پایا ہے۔
اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ بے جان لاشوں سے بات کر رہے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم لوگ میری باتوں کو ان مُردوں سے بہتر نہیں سن سکتے، مگر وہ مجھے جواب نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مکہ میں شکست کی خبر پہنچنا:
مکہ کے شکست خوردہ سپاہی وادیوں اور صحراؤں میں منتشر ہو چکے تھے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی طرح مکہ پہنچ جائے، لیکن اکثر کو راستہ بھی معلوم نہ تھا۔ بالآخر سب سے پہلے جو شخص مکہ پہنچا وہ حُسَیمان بن عبد اللہ تھا۔ اس نے آ کر اہل مکہ کو شکست کی خبر سنائی۔ لوگوں نے اپنے مقتولین پر بہت گریہ و زاری کی، لیکن پھر رونا بند کر دیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گریہ سے خوشی نہ ہو۔
ابو لہب مکہ کے سرداروں میں سے تھا، وہ مکہ میں ہی رہا۔ شکست کی خبر نے اُسے اتنا ذلیل کر دیا کہ مکہ کے کمزور اور ناتواں لوگ بھی اُس کے گریبان تک ہاتھ ڈالنے لگے۔ ابو لہب سات دن زندہ رہا۔ وہ ’’عدسہ‘‘ نامی بیماری میں مبتلا ہو گیا (عدسہ ایک قسم کا پھوڑا یا طاعون تھا جسے عرب منحوس سمجھتے تھے) اور اسی بیماری سے مر گیا۔ اُس کی وفات کے بعد کسی نے اس کے جسم کو ہاتھ نہ لگایا۔ تین دن بعد لوگوں کے طعن و تشنیع کی وجہ سے اُس کے بیٹے مجبور ہوئے۔ انہوں نے ایک گڑھا کھودا اور دور سے ایک لکڑی کے ذریعے اُسے اس گڑھے میں دھکیل دیا، پھر اُس پر مٹی ڈال دی۔
یہ ان مغروروں کا انجام تھا جو مکہ میں کمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے تھے اور اسلام لانے کی وجہ سے اُن پر ہر قسم کا ظلم روا رکھتے تھے۔ لیکن یہ گمراہ قوم اللہ کی قدرت کو خاطر میں نہ لاتی تھی، اور رب تعالیٰ کے عذاب سے غافل تھی۔
مکہ کا ہر گھر اور ہر گلی ماتم میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کیوں نہ ہوتی، جب ایک قوم کے درجنوں سردار قتل ہو جائیں، ان کی طاقت اور غرور خاک میں مل جائے، اور ہر گھر میں جنازے ہوں، تو لازم ہے کہ مکہ غم میں ڈوبا ہو۔
کاش! مرنے والوں کا انجام اچھا ہوتا، اور وہ کفر کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آ گئے ہوتے۔
مدینہ میں اُس وقت مسلمانوں کی فتح کی خبر پہنچی، جب صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ وہ بیمار تھیں، یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں رکنے کا حکم دیا تھا۔
غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ:
اسلامی لشکر ابھی بدر کے میدان سے واپس نہیں آیا تھا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں مختلف آراء اور اختلافات سامنے آ گئے۔ وہ صحابہ جنہوں نے مشرکین کا پیچھا کیا تھا اور انہیں مار بھگایا تھا، وہ غنیمت کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر مامور گروہ بھی اسے اپنا حق سمجھتا تھا، اور جنہوں نے مالِ غنیمت کو اکٹھا کیا تھا وہ بھی اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتے تھے۔
لیکن یہ تنازع ختم ہو گیا، وحی نازل ہوئی، اور رب تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ…”
ترجمہ: (اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے مالِ غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیے: مالِ غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے(یعنی جس طرح وہ چاہیں، تقسیم کریں)، پس اللہ سے ڈرو، اور آپس میں صلح صفائی کرو۔
پھر رسول اللہ ﷺ مکہ کی طرف روانہ تھے تو راستے میں صفراء نامی مقام پر مالِ غنیمت تمام سپاہیوں میں برابر تقسیم فرما دیا۔ امام بخاریؒ اور امام ابن جریرؒ کے مطابق اُس میں سے پانچواں حصہ نکالا گیا۔ کسی بھی گروہ نے کوئی شکایت نہ کی، تمام سپاہی اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر راضی و خوش تھے۔
مالِ غنیمت میں اُن آٹھ افراد کو بھی حصہ دیا گیا جو بدر کے معرکے میں رسول اللہ ﷺ کے حکم یا اجازت سے شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں: عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، سعید بن زید، ابو لبابہ، عاصم بن عدی، حارثہ بن حاطب، حارث بن صمہ، اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم اجمعین۔
صفراء کے مقام پر قیدیوں میں سے دو افراد نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط۔ کو قتل کیا گیا یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ تکلیف دیتے تھے، ان کی زبانیں تیز، باتیں زہریلی اور کردار گستاخانہ تھا۔ انہوں نے قول و عمل دونوں سے رسول اللہ ﷺ کو اپنی کوشش کے مطابق ایذاء پہنچانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔