غزوات النبی ﷺ اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق! چودہویں قسط

ابو ریان حمیدی

فدیہ لے کر قیدیوں کو رہا کرنا:

جب لشکرِ اسلام واپس مدینہ منورہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ان سے فدیہ لے لیا جائے، یہ ہمارے رشتہ دار اور خاندان کے افراد ہیں۔ اگر ہم ان سے فدیہ لیں تو ممکن ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام کی روشنی داخل ہو جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مالی حالت کو بھی مضبوط کرے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے رائے طلب کی۔ انہوں نے عرض کیا: انہیں قتل کر دیا جائے؛ ہر صحابی کو اس کا قریبی رشتہ دار دیا جائے تاکہ وہ اس کی گردن مار دے، تاکہ مشرکین جان لیں کہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے کوئی نرمی نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا اور قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کر دیا۔ البتہ فدیہ ہر قیدی کے لیے لازم نہیں تھا۔ کچھ ایسے قیدی جو مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے، انہیں بغیر فدیہ کے آزاد کر دیا گیا۔ اور جنہیں لکھنا پڑھنا آتا تھا، ان پر لازم کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا سکھائیں، پھر وہ آزاد ہوں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی لکھنے والے (زید بن ثابت رضی اللہ عنہ) نے بھی اسی موقع پر لکھنا سیکھا۔

فدیہ لینے پر تنبیہ اور قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب میں صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں رو رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ قیدیوں سے فدیہ لینے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب کے انداز میں یہ آیت نازل ہوئی تھی:

’’مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ، تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ، وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ‘‘

(سورۃ الأنفال: ۶۷)

ترجمہ: کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہائے تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہےږ

جب فاتح لشکر مدینہ منورہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو صحابہ کرام میں اس ہدایت کے ساتھ تقسیم کیا کہ:

’’استوصوا بالأسارى خيرا‘‘ ترجمہ: قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔

یہ بات حیران کن ہے کہ یہ لشکر فتح کے نشے میں نہیں تھا، حالانکہ عام طور پر فاتح لشکر مفتوح لشکر کے افراد کو قتل کرتا ہے اور اگر قتل نہ کرے تو ان کی جان بخشی احسان کی اعلیٰ ترین شکل سمجھی جاتی ہے۔ لیکن صحابہ کرام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے، قیدیوں کو اپنے آپ سے بہتر کھانا دیتے تھے۔ پہلے ان کو کھانا دیتے، اگر کچھ بچ جاتا تو خود اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے رکھتے، اور اگر کچھ باقی نہ رہتا تو خود کھجوروں پر گزارا کرتے۔

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی عبدالعزیز بن عمیر فرماتے ہیں:

’’میں ایک انصاری صحابی کے ساتھ تھا، وہ صبح و شام تھوڑی سی روٹی تیار کرتے اور مجھے دے دیتے، خود کھجوروں پر گزارا کرتے۔ میں انہیں بار بار کہتا کہ خود کھائیں، لیکن وہ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں کے بارے میں ہمیں یہی تاکید فرمائی ہے۔‘‘

یہی وہ ایثار و قربانی کا عملی نمونہ تھا جس نے دنیا میں اسلامی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ روم و فارس جیسی عظیم سلطنتیں ان فقیروں اور درویشوں کے سامنے ٹھہر نہ سکیں۔

یہ بات یاد رہے کہ بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد ابوالعاص بن ربیع بھی شامل تھا، جو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔ جب فدیہ بھیجنے کا وقت آیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے گلے کا ہار، جو انہیں شادی کے موقع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا، فدیہ کے طور پر بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور صحابہ کرام سے مشورہ کر کے وہ ہار واپس بھجوا دیا، اور ابوالعاص کو رہا کر دیا، مگر شرط یہ رکھی کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ ہجرت سے نہ روکیں۔ بعد میں ابوالعاص رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔

ابو العاص، مطلب بن حنطب، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عُزّہ عمرو بن عبداللہ؛ یہ سب بغیر فدیہ کے رہا کیے گئے۔ ابو عُزّہ کی صرف بیٹیاں تھیں اور نادار تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی تنگ دستی بیان کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بغیر فدیہ کے آزاد کر دیا۔ اس کے بعد ابو عُزّہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اشعار پڑھتا اور آپ کی مہربانی کو سراہتا رہتا تھا۔

عمیر بن وہب کا بیٹا بھی بدر کے قیدیوں میں شامل تھا۔ عمیر خود مدینہ آیا، نیت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر شک ہو گیا۔ انہوں نے اسے گرفتار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے آنے کی وجہ پوچھی، تو وہ یہی کہتا رہا کہ بیٹے کی رہائی کے لیے آیا ہوں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اور صفوان، جو کعبہ کے قریب بیٹھے تھے، تم دونوں نے کیا بات کی تھی؟‘‘ اس سوال کے ساتھ ہی عمیر نے اسلام قبول کیا اور کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘

عمیر اور صفوان دونوں نے کعبہ کے قریب یہ سازش تیار کی تھی۔ صفوان نے عمیر کے خاندان کی کفالت کا ذمہ لیا تھا، اور عمیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے مدینہ بھیجا تھا۔ لیکن صفوان کو یہ معلوم نہ تھا کہ عمیر تاریکیوں سے نکل کر نور کی آغوش میں داخل ہوگا۔

Author

Exit mobile version