اسلام ایک عظیم دین ہے، جو اپنے پیروکاروں کو بہادری، ایثار اور قربانی کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام قربانی کا دین ہے، جس میں مشکلات اور تکالیف بھی آتی ہیں، کیونکہ اسلام کی بنیاد اور اساس ہی قربانیوں پر رکھی گئی ہے۔ جس نے اسلام قبول کیا، اس نے بھی قربانیاں دیں، جس نے اس کی پیروی کی، اس نے بھی مشکلات کا سامنا کیا، اور جس نے اسے پھیلایا، اس نے بھی سخت حالات کا سامنا کیا؛ جو لوگ اسلام پر قائم رہے، وہ بھی عظیم آزمائشوں سے گزرے۔
یہ اصول آہستہ آہستہ فطرت کا حصہ بن گئے؛ اور آج تک جتنا وقت اسلام کو ہوا ہے، اتنا ہی قربانیوں سے گزرا ہے۔ تاریخ اسلام کا ہر صفحہ کسی نہ کسی پیروکار، قوم یا جماعت کی قربانیوں سے مزین ہے۔
ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے اسلام کو اپنا خونِ جگر دے کر قائم رکھا، اس پر ایمان لائے اور دوسروں تک اسے پہنچایا۔ یہ قومیں، گروہ اور افراد چاہے تعداد میں کم تھے، مگر بہادری اور عقیدے میں مضبوط تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے لشکروں کو شکست دی، سخت مراحل سے گزرے، لیکن اسلام کی کشتی کو ساحل تک پہنچایا۔
بدر میں تین سو تیرہ صحابہ تھے، یا حضرت خالد بن ولید کے تین ہزار سپاہیوں نے شرحبیل کے ایک لاکھ لشکر کے مقابلے میں فتح حاصل کی۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دیتے رہے ہیں۔
اسلام کے ابتدائی ادوار میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور خالد رضی اللہ عنہم نے اسلام کو عروج بخشا۔ وسطی ادوار میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم، یوسف بن تاشفین اور صلاح الدین ایوبی نے اسلام کی عظمت کا پھریرا دنیا پر لہرایا۔
آج کے دور میں افغانستان، افریقہ و جزیرہ العرب کے چند بہادروں، شام اور القدس کے لوگوں نے اسلام کا علَم بلند رکھاہوا ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف اسلام کے لئے قربانیاں دیں، بلکہ کفار کے ہاتھوں جو زمینیں چھن گئی تھیں، انہیں دوبارہ اسلام کے نور اور اللہ کی پاک شریعت سے منور کیا۔
غزہ، بہادری کا نام اور نمونہ ہے؛ یہ وہ سرزمین ہے جس نے اپنی بے بسی، لاچاری اور تنہائی میں القدس کی عظمت اور اسلام کے پاک دین کو بچایا، حالانکہ یہاں تقریباً ۵۰۰ دنوں تک جنگ جاری رہی۔
ایسی جنگ جس میں ہر روز سینکڑوں لوگ شہید ہو رہے تھے۔ غزہ کا مبارک علاقہ ایک قبرستان اور کھنڈر میں بدل چکا تھا، ہر گری ہوئی دیوار کے نیچے ایک شہید بچے کی لاش تھی، ہر کھنڈر کے اوپر ایک بوڑھا باپ کھڑا تھا، ہر سنگر و محاذ سے ایک عظیم بہادر کے خون کی خوشبو آتی تھی۔
غزہ کی مساجد، امام، طالب علم، کتابیں اور قرآن کریم الگ الگ شہید ہو رہے تھے۔ ہر مسجد کے صحن میں قرآن کے اوراق بکھرے ہوئے ملتے، یا شہید کی خون آلود سینے سے چمٹا نظر آتا، غزہ کے ہر گھرانے میں کئی کئی شہید تھے، ایسے خاندان بھی تھے جہاں بیس افراد میں سے صرف ایک بچہ بچا، اور ایسے بھی تھے جہاں پورا خاندان شہید ہو چکا تھا۔
غزہ کے عوام صرف بمباری اور جنگ کی وجہ سے شہید نہیں ہو رہے تھے، بلکہ وہ بھوک، پیاس اور سردی سے بھی شہید ہو رہے تھے۔ یہ ایک الگ ہی نوعیت کاعلاقہ تھا؛ جہاں ہنسی کا نام و نشان نہ تھا، جہاں صرف سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی تھیں۔ غزہ تنہا تھا، پوری امت سو رہی تھی، کسی نے اس کی آہ و پکار نہ سنی، کوئی بے بس تھا، کسی نے دشمنوں کے خوف سے اہلِ غزہ کی مدد سے ہاتھ کھینچا، اور بہت سوں کے ضمیر سوئے ہوئے تھے۔
مختصر یہ کہ غزہ و اہلِ غزہ کی مدد و نصرت کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا، مگر! ان بہادر لوگوں میں استقامت تھی، وہ لڑے، اور لڑتے گئے، تعداد میں قلیل تھے، ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی تھی مگر وہ پھر بھی مضبوط کھڑے تھے۔ ان کی بہادری صلاح الدین ایوبی کی یاد دلاتی ہے۔ یحییٰ سنوار شہید ہو گئے، ان کا جسم زخموں سے چھلنی تھا، ڈرون آیا، ان کے پاس صرف ایک لکڑی تھی، انہوں نے اس سے اس ڈرون پر وار کیا۔ غزہ کے عوام بھی یحییٰ سنوار کی طرح تھے، انہوں نے لکڑی سے ڈرون کا مقابلہ کیا، جی ہاں! انھوں نے دشمن کی ناک میں دم کردیا۔ صہیونی فوج شکست کھا گئی، جنہوں نے کل غزہ کو جہنم بنایا تھا، آج وہ معاہدے کے لیے ہاں یا نہ کا انتظار کر رہے تھے۔
یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا، سب حیران تھے، چند بے بسوں نے اتنی طاقتور فوج کو کیسے شکست دی؟
جی ہاں! یہ صرف مومن ہی جانتے تھے کہ یہ فتح پختہ ایمان ویقین کا نتیجہ ہے، یہ جهاد کی بدولت ممکن ہوئی، یہ ایثار اور قربانی کی برکت ہے جو مسلمانوں کو فتوحات سے نوازتی ہے۔