داعش دراصل ایک فتنہ پرور گروہ ہے، اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اقدار سے مکمل طور پر متصادم ہے، اس گروہ کی انتہاپسندی، تشدد اور اسلامی اصولوں سے انحراف کو اسلامی دنیا کے بیشتر علماء اور دانشوروں نے سختی سے مسترد کیا ہے اور اسے اسلام کے خلاف قرار دیا ہے۔
داعشی خوارج کے اصولوں اور خیالات سے بہت مشابہت رکھتے ہیں، جو اسلام سے انحراف شدہ تشریحات پیش کرتے ہیں اور تشدد و انتہاپسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، خوارج کی طرح داعش بھی اپنے آپ کو حقانیت اور خالص اسلام کا دعویدار سمجھتی ہے لیکن حقیقت میں ان کے افکار اور اعمال اسلام کے اصولوں سے متصادم ہیں۔
بہت سے لوگ اب داعش کی باطل دعوت اور انتہاپسندانہ خیالات سے آگاہ ہو چکے ہیں، گزشتہ برسوں میں داعش کے ظلم، تشدد اور انتہاپسندی سے کافروں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا کہ مسلمانوں کو ہوا ہے، داعش اپنے آپ کو اسلام کا محافظ ظاہر کرتی ہے لیکن اس کے اعمال اور خیالات اسلام کے اصولوں اور اقدار سے متصادم ہیں۔
لوگ جان چکے ہیں کہ داعش ایک انتہاپسند اور منحرف گروہ ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو اپنے ذاتی، سیاسی مفادات کے لیے دین کے نام کو بدنام کرتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا اصلی چہرہ اور باطل دعویٰ سب کے سامنے آ چکا ہے، خاص طور پر داعش کے ہاتھوں کی جانے والی انتہاپسندانہ کارروائیاں، ظلم و ستم اور بے رحمانہ حملے اس بات کا سبب بنے ہیں کہ لوگ ان کے دعؤوں اور پروپیگنڈے کو شک اورنفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
عالم اسلام کے بیشتر دینی علماء، دانشوروں اور اسلامی اداروں نے داعش کے خیالات اور پروپیگنڈے کو واضح طور پر مسترد کیا ہے اور لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ ان کے اعمال اور نظریات اسلام سے متصادم ہیں، ان فتاوی اور بیانات سے لوگوں میں یہ آگاہی پیداہوئی ہے کہ داعشی اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، یہ لوگ صرف اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور دینی تعلیمات کے ذریعے بھی لوگوں کی آگاہی میں اضافہ ہوا ہے، اب لوگ یہ سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں کہ داعش کی پروپیگنڈے اور جھوٹے دعووں کی حقیقت کیا ہے اوراب ان کے دعوؤں سے متاثر نہیں ہوتے، اس لیے داعش بھی حالیہ سالوں میں کمزور ہوئی ہے اور اس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں نمایاں کمی آئی ہے۔