ننگرہار میں داعش کے جرائم

فاروق ننگرهاری

۲۰۱۵ء میں افغانستان کے ننگرہار صوبے میں داعش کے نام سے ایک گروہ سامنے آیا، جس نے اس صوبے کے اچین، ہسکہ مینه، شینوارو، کوٹ، توره بوره، چپرهار اور دیگر کئی اضلاع میں لوگوں کو اپنے باطل نظریات پرقائل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔

اس گروہ کو ملک میں جاری افراتفری کے دوران ملکی خفیہ ایجنسیوں کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اس کے پاس وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان اور ہتھیار فراہم کیے جا رہے تھے جو کہ قومی سلامتی اور دیگر کئی اداروں کے ذریعے فراہم کیے جاتے تھے۔

ننگرہار میں داعش کے دہشت گرد گروہ نے اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے ملک کے کچھ دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ ننگرہار کے توره بوره، اچین، کوٹ، شینوارو، ہسکہ مینه، چپرهار اور دیگر علاقوں میں بے گناہ مسلمانوں، قبائلی رہنماؤں، تاجروں، علماء، اسکولوں اور دینی مدارس کے طلباء کو بلاجواز قتل کیا، اس گروہ نے سینکڑوں خاندانوں کو ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا۔

داعش کے دہشت گرد عام مسلمانوں کو مشرکین کے نام سے پکارتے تھے اور ان کے اموال، گھر اور جان کو اپنے لیے غنیمت سمجھتے تھے، وہ ننگرہار میں باقاعدگی سے عام افراد، قبائلی رہنماؤں، علماء اور بزرگ شخصیات کے قتل میں ملوث تھے اور بازاروں، مساجد اور عوامی مقامات پر خودکش حملے کرتے تھے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

۲۰۱۶ء میں داعش کے دہشت گردوں نے ننگرہار کے کوٹ ضلع میں مقامی افراد اور قبائلی رہنماؤں کے ایک عوامی اجتماع میں بم دھماکہ کیا، جس کے نتیجے میں درجنوں افغان شہری شہید ہوگئے۔

۲۰۱۷ء میں داعش نے نازیان علاقے میں مقامی قبائلی رہنماؤں اور عام مسلمانوں کے ایک اجتماع پر بم دھماکہ کیا، جس میں درجنوں افراد کی جانیں گئیں۔

۲۰۱۹ء میں داعش کے دہشت گردوں نے ننگرہار کے ہسکہ مینه ضلع کی ایک مسجد میں بم دھماکہ کیا، جس کے نتیجے میں درجنوں نمازی شہید ہو گئے۔

اسی طرح ننگرہار کے زاوه، مومند درہ، نازیان، لعلپوری اور دوربابا علاقوں میں داعش کے دہشت گردوں نے بہت سے شہریوں کو شہید کیا، جن میں طلباء، کسان، دکاندار، تاجر، قبائلی رہنما اور دینی علماء شامل تھے۔

مقامی لوگوں کے مطابق داعش کے دہشت گردوں نے افغان حکومت کے نئے کرنسی نوٹوں پر بھی لوگوں کو شہید کیا اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ جو لوگ نئے نوٹ استعمال کرتے ہیں وہ لازماً حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اس کے علاوہ داعش نے ان افراد کو بھی قتل کیا جو ان کے سخت گیر نظریات اور مذہبی عقائد کے مخالف تھے۔

علماء اسلام خاص طور پر صوفیاء حضرات اور دینی علماء پر حملے، مساجد، خانقاہوں اور مزارات کی تباہی، اسی طرح لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کی توہین، ننگرہار ولایت میں داعش کا ایک اہم اور روزمرہ کا معمول تھا، داعش نے نہ صرف جسمانی تشدد کے ذریعے لوگوں کو نشانہ بنایا بلکہ ان کی روحانی اور ثقافتی شناخت کو بھی ٹارگٹ کیا، تاکہ وہ اپنے عقائد اور روایات سے ہٹ کر گمراہ ہوجائیں۔

Author

Exit mobile version