وولگوگراد کے تمام داعشی "مجاہدین” منشیات کے سمگلر تھے

۲۳ اگست بروز جمعہ روز کے شہر وولگوگراد کے انیسویں جیل میں چار قیدیوں نے متعدد قیدیوں اور محافظین کو یرغمال بنا لیا۔ یرغمال بنانے والوں نے ۸ افراد کو ہلاک کر دیا، تاہم چند گھنٹوں بعد روسی سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں چاروں افراد مارے گئے۔

داعش نے اپنے ہفت روزہ النباء کے حالیہ شمارے میں مذکورہ واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے اور حملہ آوروں کو "مجاہدین” کہا ہے۔ لیکن ماسکو میں کروکس ھال کے داعشی حملہ آوروں کی طرح، وولگوگراد کے "مجاہدین” بھی غیر قانونی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار ہوئے اور جیل بھیجے گئے تھے۔

وولگوگراد کے واقعہ میں ملوث افراد کے نام نوروزی رستم جان، نزیر جان توشوف، شاہ عبد الکریم خان کریموف اور شاہ جہان سیفییف تھے۔ پہلے تین افراد کا تعلق تاجکستان سے جبکہ آخری فرد کا تعلق ازبکستان سے تھا۔

آزادی ریڈیو تاجکستان نے نوروزی کے والد رستم جان سے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں ملاقات کی۔ رستم جان نے انہیں اپنے بیٹے کے حوالے سے بتایا کہ وہ دیندار آدمی نہیں تھا اور دینی معاملات میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

آزادی ریڈیو نے لکھا ہے کہ نوروزی ۲۰۱۹ء میں ۲۳ سال کی عمر میں روس چلا گیا اور ۲۰۲۲ء میں منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں سات سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔

نوروزی کا دوسرا تاجکستانی ساتھی نذیر جان توشوف بھی منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں گرفتار ہوا تھا۔ ارباط میڈیا نامی ایک قزاقستانی میڈیا ادارنے نے روسی حکام کا بیان نشر کیا ہے کہ نذیر جان فروری ۲۰۲۱ء میں ڈیڑھ کلو ہیروئین کے ساتھ، جسے وہ کسی اور جگہ منتقل کرنا چاہ رہا تھا، گرفتار کیا اور اکتوبر ۲۰۲۲ء میں عدالت کی جانب سے اسے ساڑھے آٹھ سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔

جیل میں یرغمال بنانے کی کاروائی کا ماسٹر مائند شاہ عبد الکریم خان کو سمجھا جا رہا ہے۔ روس کے آر ٹی ٹیلی ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ وہ اپریل ۲۰۱۹ء میں اپنے بھائی کے ساتھ منشیات فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا اور اسے ۸ سال قید کی سزا ہوئی۔ شاہ عبد الکریم خان کھیلوں میں بہت دلچسپی رکھتا تھا اور روسی سوشل میڈیا "وی کے” پر لوگوں کو امیر بننے کے طریقے بتاتا تھا۔

ازبکستان کے میڈیا ادارے "مائگرنٹ” کی خبر کے مطابق چوتھا فرد شاہ جہان ازبکستان کا شہری تھا اور وہ بھی ۲۰۲۲ء میں منشیات کی تقسیم کے جرم میں دو دیگر ازبکستانیوں کے ساتھ گرفتار ہوا تھا۔

داعشیوں نے بھی اپنے "مجاہدین” کے تاریک ماضی کا اعتراف کیا ہے

داعشی خوارج کے ہفت روزہ النباء نے جہاں وولگوگراد میں ہونے والے واقعے کی ذہ داری قبول کی وہیں یہ بھی لکھا کہ ان "مجاہدین” نے جیل میں اصلاح کے بعد توبہ کر لی تھی۔ خوارج جانتے تھے کہ ان کے دام میں دین و جہاد کے مقدس مفہوم سے بے خبر تاریک ماضی کے حامل افراد موجود ہیں اور یہ خبر کسی وقت ضرور سامنے آ جائے گی، اسی لیے انہوں نے اپنی شرمندگی و رو سیاہی سے بچنے کے لیے توبہ کے موضوع پر زور دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ خوارج کے گروپ میں صرف ایسے لوگ ہی کیوں شامل ہو رہے ہیں جن کا ماضی وولگوگراد اور کروکس کے "مجاہدین” کی طرح تاریک ہے اور جنہوں نے اسلام اور جہاد کا صرف نام ہی سن رکھا ہے؟

Author

Exit mobile version