پرانا کھیل، نئی حکمتِ عملی کے ساتھ؛ پاکستان میں مذہبی رہنماؤں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

مفتی ابو حارث فاضل ومتخصص وفاق المدارس العربیہ پاکستان

پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر اپنے پرانے شیطانی منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد قومی و مذہبی شخصیات کو نشانہ بنانا، انہیں پراسرار انداز میں قتل کرنا، مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگوں کو فروغ دینا، اور مختلف مذہبی جماعتوں کے درمیان بداعتمادی اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنا ہے۔

پاکستانی معاشرے پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ریاست اور اس کی خفیہ ایجنسیاں براہِ راست یا اپنے تربیت یافتہ گروہوں کے ذریعے کبھی دیوبندی علماء کو نشانہ بناتی ہیں، تو کبھی اہل حدیث (سلفی) مکتبِ فکر کے علماء کو ہدف بناتی ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے انہیں سیکیورٹی خدشات اور دھمکیاں دی جاتی ہیں، تاکہ خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔ بعد ازاں ان اموات اور دھمکیوں کا الزام تحریک طالبان پاکستان (TTP) یا کسی اور مسلح گروہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔

شعبان کے آخری جمعہ کو مشہور دیوبندی درسگاہ "جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک” کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق صاحب (رحمہ اللہ) کو داعشی خوارج کے ہاتھوں قتل کروانا، اور ایک صرف ایک ہی ہفتہ بعد، جماعت اہلحدیث کے نامور عالم دین شیخ امین اللہ پشاوری (حفظہ اللہ) کو ہدف بنانے کا تھریٹ جاری کرکے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف ان دھمکیوں کی نسبت کرنا پاکستانی خفیہ اداروں کے شاطرانہ چال کی خوب عکاسی کرتا ہے۔

اسی طرح، ضلع کرم میں شیعہ سنی فسادات کو وقتاً فوقتاً اُٹھانا اور بے گناہ عوام کو قتل کر کے شیعہ سنی فرقہ واریت کو ھوا دینا پاکستانی خفیہ اداروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چُکا ہے۔

پاکستانی معاشرہ میں اس قسم کے فسادات اور قتل وقتال کو ریاستی سطح پر فروغ دینے کا اہم مقصد مذہبی جماعتوں (بالخصوص دیوبند واہل حدیث اور شیعہ وسنی) کے درمیان مزید نفرتوں کو فروغ دینے، اختلافات پیدا کرنے، اور اپنے جائز حقوق کے لئے بر سرِ پیکار جماعتوں سے عوام اور مذہبی طبقات کا اعتماد اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

پاکستان کے خفیہ ادارے اس طرح شاطرانہ چال چلنے اور یہودی وصہیونی لابی کی نشاندہی پر مختلف مذہبی شخصیات و قائدین کو ٹارگٹ کرکے مذہبی فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا کافی پرانا تجربہ رکھتے ہیں۔ ہم ماضی بعید اور ماضی قریب کے کچھ مثالوں سے اپنے اس دعوے پر کچھ شواہد پیش کرکے فیصلہ اور نتائج قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

پاکستان میں جید دیوبندی واہل حدیث علماءِ کرام، اسی طرح شیعہ سنی اور بریلوی علماء وقائدین کی پر اسرار اموات اور ان کے اجتماعات میں دھماکے کروانے کی ایک طویل فہرست اور دردناک داستان ہے، ہم چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔

اہل حدیث مکتب فکر کے علماء کے قتل کی داستان!

اسی کی دہائی میں جمیعت اہل حدیث کے چھ قائدین بشمول علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید اور سو کے لگ بھگ عام کارکنان کو ایک ہی اجتماع میں بم دھماکے کے ذریعے خفیہ اداروں نے زخمی اور شہید کردیا۔ کیا کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ اَسّی کی دہائی میں کون سی دہشت گرد تنظیم نے یہ سفاکانہ اور ظالمانہ کارنامہ سرانجام دیا تھا، کیا اس وقت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا دیگر مسلح جماعتوں کا وجود تھا؟؟؟

علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ کی شہادت سے لیکر مرکزی جمعیت اہل حدیث خیبر پختونخوا کے نائب امیر شیخ الحدیث علامہ عبدالحمید رحمتی کی شہادت تک، سینکڑوں اہل حدیث علماء کرام اور کارکنان کے قتل کے ذمہ دار یہی فرنگی سامراج کے پالے ہوئے اور ان کے وظیفہ خور فوجی ادارے ہیں، مولانا عبدالحمید رحمتی ان سلفی اور اہلحدیث علماء میں سے تھے جنہوں نے فتح کابل سے چند ماہ قبل امارت اسلامیہ افغانستان کو تسلیم اور ان کے ساتھ بیعت کا اعلان کیا تھاـ جس کی سزا ریاستی اداروں کی جانب سے انہیں شہادت کی صورت میں دی گئی۔

آج مشہور سلفی عالم دین شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں، جبکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بھی اپنے ایک اعلامیہ میں اس دھمکی کو جعلی اور ریاستی اداروں کا گیم قرار دیا ہے۔

دیوبندی مکتب فکر علماء کرام کے قتل کی داستان نہایت دردناک اور تفصیل طلب ہے۔ ہم اجمالی طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں۔

پاکستان میں دیوبندی مکتب فکر کی چار بڑی جماعتیں/ تنظیمیں ہیں، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اشاعت التوحید والسنہ، سپاہ صحابہ، تحریک تحفظ ختم نبوت۔

ان چاروں جماعتوں کے اکثر علماء کرام کے قتل کی داستانیں موجودہ مسلح تنظیموں کے وجود سے بہت پرانی ہیں، سپاہ صحابہ اور تحریک تحفظ ختم نبوت کی پوری قیادت کو سرِعام دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس شہید حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ، شہید مولانا مفتی عبدالسمیعؒ، شہید مولانا مفتی عبدالمجید دین پوریؒ، شہید مولانا مفتی صالح محمد کاروڑیؒ، شہید حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، شہید حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئیؒ، شہید مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ، شہید حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ، شہید حضرت مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور جامعہ فارقیہ کراچی کے اساتذہ کرام کے اجتماعی قتلِ عام سے لے کر اکتوبر 2020ء کو ولی کامل، بانی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان شیخ سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید کو دن دھاڑے شہید کرانے اور اس کا ملبہ شیعہ، یا ان کی طرف منسوب مسلح بریگیڈز پر ڈالنا کس بات کی غمازی کرتا ہے؟؟

بریلوی مکتب فکر کے علماء اور ورکرز (بالخصوص تحریک لبیک کے غیور قائدین اور کارکنان) کو مظاہروں، جلسوں، اجتماعات اور ان کے مزارات میں دھماکے کروانا، 2006ء میں نشتر پارک کراچی میں عید میلاد النبی کے جلسے میں دھماکہ کرواکر 60 علماءِ کرام اور سو سے زائد کار کنان کے دل خراش سانحہ سے لے کر ماضی قریب میں فیض آباد اور کراچی کے جلسوں اور مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کرنا، آنسو گیس چلانا کس دہشت گرد گروہ کی کارستانی ہے؟؟

ماضی قریب میں اس طرح کے افسوسناک اور پراسرار واقعات میں جتنے بھی علماء حق اور بالخصوص ریاستی اداروں کے منشاء کے خلاف چلنے والے سیاسی ومذہبی قائدین اور کارکنان نشانہ بنے ہیں، ان کے پیچھے اسی ناپاک اور یہودی سیاست کا تسلسل ہے، جو پاکستانی خفیہ اداروں نے سیاسی ومذہبی طبقہ کو دبانے اور مغربی مفادات پورے کرنے کی خاطر اپنائے رکھا ہے۔ ریاستی خُفیہ ادارے مغربی قوتوں کی نمک حلالی کرتے ہوئے کبھی کھل کر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کی زندہ مثالیں خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور بالخصوص قبائلی عوام پر مسلط کردہ ڈالری جنگ ہے، اور کبھی یہ بزدل دشمن پیچھے سے وار کرکے اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

یاد رہے! اس قسم کے واقعات انجام دینے کے بعد ریاستی ادارے انہیں دھشت گردی سے جوڑنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔

درحقیقت پاکستانی خفیہ ادارے ہی اس قسم کے واقعات کی پلاننگ کرکے مذہبی طبقات کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر علمائے اسلام کا مقدس خون اس بات پر شاہد ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ہیں، ان اداروں نے شہیدِ ملتِ اسلامیہ مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ کے قلم سے تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین کے قتل کا جواز فراہم کرنے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر فخرِ ملتِ اسلامیہ، جے یو آئی (س) کے سربراہ، اور دارالعلوم دیوبند ثانی کے روح رواں نے بڑی بڑی پیش کشوں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی اداروں کے ناجائز مطالبہ کو یکسر مسترد کردیا، اور اپنے ہم عصروں (شہید مفتی نظام الدین شامزئی، شہید شیخ گل نصیب خان، شہید شیخ سلطان غنی عارف اور شہید شیخ ولی اللہ کابلگرامی رحمہم اللہ تعالیٰ) کے قدموں سے قدم ملایا اور بالآخر دن دھاڑے پاکستان کے خفیہ خونخوار اداروں نے ضعیف العمر عالم ربانی کو بھی چھریوں کے وار کرکے نہایت سفاکانہ طریقے سے شہید کردیا۔

دو ہفتے قبل اسی شہید عالم ربانی کے حقیقی وارث مولانا حامد الحق صاحب جن کی رگوں میں شہیدِ ملتِ اسلامیہ کا گرم خون گردش کر رہا تھا، امارت اسلامیہ افغانستان کے استحکام کا پرزور داعی تھا، اور پاکستانی اداروں کے آنکھوں میں کھٹک رہا تھا، انہیں بھی امارت اسلامیہ سے وفاداری کی پاداش میں نہایت چالاکی اور منصوبہ سازی سے راستے سے ہٹادیا گیا۔

لہذا! اہلیانِ پاکستان، اور بالخصوص علماء کرام کو پاکستانی ایجنسیوں کی خفیہ چالوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی، اور ماضی بعید، ماضی قریب اور حال کے منصوبوں اور کڑیوں کو ملا کر نتائج اخذ کرنا اور ان منصوبوں کو سمجھنا وقت کا اہم تقاضا اور ضرورت ہے۔

اہل حق نے ہمیشہ دشمنان اسلام کے حربوں اور چالوں سے اپنے آپ کو خبردار رکھا ہے، اور حسب استطاعت مقابلہ کرتے ہوئے دشمنان اسلام کے مکرو فریب سے بچنے کی بھر پور تدابیر اختیار کی ہیں۔ اگر اہل حق اس قسم کی چالوں سے مرعوب ہوتے تو اسلام کا یہ روشن چراغ کب کا بجھ چکا ہوتا۔

آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

Author

Exit mobile version