۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء، جس روز امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، یہاں اسلامی نظام کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ جمہوریت کی نامسعود حکومت قائم کی۔ امن اور بھائی چارے کی خوشگوار فضا ختم ہوئی اور جبر، تشدد اور بربریت کا سیاہ دور شروع ہوا۔
امریکہ نے افغانستان کے غیور اور مسلم عوام اور یہاں موجود ہرقسم کی مذہبی، اسلامی، ثقافتی، اخلاقی اور سماجی اقدار کو پامال کیا، انہوں نے آہستہ آہستہ اسلام کے دامنِ امن وسکون کو لپیٹنا اور مغرب کے پراگندہ نظریات اور جمہوریت کی عظیم وباء کوپھیلانا شروع کردیا۔
اس شیطانی حکومت کے خلاف امارت اسلامیہ کے مٹھی بھر بہادروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے ہزاروں مسلح کافر فوجیوں کو ایسی شکست فاش سے دوچار کیا کہ امریکہ یہاں اپنی آمد پر کفِ افسوس ملتا رہ گیا۔ اس پاک وطن کے دشت، پہاڑ، چٹان اور جوان و بوڑھے غرض ہر کوئی اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہو کر مقابلے میں آیا، جس کے نتیجے میں آخرکار وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور اپنی شرمناک شکست تسلیم کر لی۔
۷ اکتوبر: امریکہ کی چند بڑی غلطیاں:
۱۔ افغانستان کی گذشتہ تاریخ کو یاد نہ رکھنا:
امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے سے قبل یہ بھول گیا کہ اسے اس سرزمین کی تاریخ اور ماضی دیکھنا چاہیے، امریکی قبضے سے پہلے افغانستان میں دو بڑی سلطنتوں، روسیوں اور انگریزوں کو شکست ہوئی تھی، یہ وہ دو عظیم قوتیں تھیں جو اس دور کی مہذب اور دستیاب ٹیکنالوجی سے لیس تھیں، لیکن یہاں انہیں بھی ناکوں چنے چبوائے گئے۔
امریکہ نے نہ افغانستان کی عوام کی قبضے اور استعمار کے خلاف مزاحمت اور رد عمل کو پڑھا اور نہ ہی اس کا صحیح ادراک کیا، اسی لیے انہیں حیران کن اور ناقابل تصور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
۲۔ افغانستان کے غیرت مند عوام کے حوالے سے غلط اندازے:
انہوں نے افغانستان کے لوگوں کو ان پڑھ اور بے شعور قوم کہا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ وہ کبھی لڑنے اور مزاحمت کے قابل نہیں ہوں گے۔ جدید ٹیکنالوجی سے کوسوں دور یہ لوگ عالمی طاقت کو کیسے شکست دے سکیں گے؟ لیکن یہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ یہ افغانی قوم ایمان کی طاقت سے لیس ہیں۔
یہ بہادر قوم استعمار اور بیرونی قبضے کو کبھی قبول نہیں کرتی، اس قوم کے ہاں کسی بھی جدید ٹیکنالوجی اورہتھیاروں سے بڑھ کر ایمان کے ہتھیار اہم اور ضروری ہیں، اسے جدید ٹیکنالوجی پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مدد پر یقین اور بھروسہ ہے۔
۳۔ جمہوریت کی ناروا حکومت پر از حد اورغیر ضروری اعتماد:
یہ حملہ امریکہ نے اس لیے کیا تاکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی قوت و اختیار مزید مستحکم کرے، اور افغانستان کی عوام سے ایمان اور یقین کے زیور چھین لے، لہذا انہوں نے جمہوریت کی ناجائز حکومت پر حد سے زیادہ مصارف خرچ کیے۔
امریکہ کویقین تھا کہ اس کے یہاں سے انخلاء کے بعد جمہوری حکومت مستحکم اور قائم رہے گی اور ہمارے احکامات پر مسلسل عمل درآمد ہوتا رہے گا لیکن جب امریکہ کو شکست ہوئی اوراس کا انخلاء شروع ہوا، ان کے نکلنے سے پہلے ہی ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی امیدوں کا مرکز، ان کی کاسہ لیس جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا، تب جا کر امریکیوں کو احساس ہوا کہ ان کا اعتماد، تمام تر تربیت اور بے دریغ اخراجات ایک کمزور و بے حمیت حکومت پر ہوئے تھے۔