مسعود پکتین✍️
تاریخ نے دیکھا!
ایک ملنگ شخصیت نے ایک سادے سے حجرے سے نکل کر ٹوٹی پھوٹی بندوقوں اور ڈنڈوں کے ذریعے وقت کے شر و فساد کو فرار پر مجبور کر دیا، بھتہ خوروں کو نکال باہر کیا، اور ظالموں کو اپنے انجام تک پہنچایا۔ اسی تاریخ نے پھر دیکھا کہ وقت کی مغرور سلطنت نے ایک نئے نئے حکومت میں آئے اسلامی نظام کو ختم کر دیا اور ملا صاحب رحمہ اللہ کی اتنے سالوں کی محنت کے لیے مستقبل کی کوئی امید نہ چھوڑی۔ لیکن ثالث عمر رحمہ اللہ نے اپنی عظیم شخصیت کی برکت سے حوصلہ نہیں ہارا، ڈٹ کر مقابلہ کیا، پہاڑوں میں چلے گئے اور امریکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اپنی وفات کے بھی کچھ سال بعد تک حکمرانی کرتے رہے۔ ایسی شخصیت آج کی تاریخ نے دیکھی اور اسے اپنے سینے میں بسا لیا۔ رحمۃ اللہ علیہ
تاریخ نے وقت کے سیدھے سادھے ملا کو ایک بار پھر جنگی حکمت عملیوں میں کامیاب پایا۔ وہ ملا جس کی آواز تقریباً اسّی سال سے خاموش کی جا چکی تھی، اسی ملا نے ثابت کر دیا کہ ملا معاشرے کے ہر پہلو کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے دنیا کو بھی دکھا دیا کہ صرف اللہ تعالیٰ کا عادلانہ نظام ہی ہے جو کامل طور پر امن قائم کر سکتا ہے۔
امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ اگر ایک طرف دین کے معلم تھے تو دوسری طرف ایک تجربہ کار جنگی کمانڈر بھی تھے، ایسے کمانڈر جو جنگ کی اوّلین صفوں میں خود موجود ہوتے، تاریخ کے اوراق میں صحابہ کرام اور سلف صالحین کے بہادروں کے سوا کوئی ایسا بہادر سپہ سالار نہیں ملتا جو میدان جنگ کے گرمی میں خود بھی رہا ہو۔ مجموعی طور پر بڑے ملا صاحب رحمہ اللہ اس جوانمردی کی خاصیت اور اس کے ساتھ دیگر بہت سی ایسی خصوصیات کے حامل تھے جن کے بارے میں عرب و عجم رطب اللسان ہیں۔
مشرق و مغرب کے لوگ انہیں دیکھنے کے متمنی اور ان کی قیادت کے سائے کے متلاشی ہیں۔
سقوطِ امارت کے بعد ملا صاحب کی وفاداری کا حال یہ تھا کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی اپنے پیارے وطن کو چھوڑا نہیں، کہ کہیں ان کے ساتھیوں کے حوصلے ٹوٹ نہ جائیں، اپنے ساتھیوں سے وفا اور کیسے کی جاتی ہے؟ جس طرح ملا صاحب وفادار تھے، اسی طرح ان کے ساتھ موجود ان کے ساتھی بھی وفادار تھے۔ لاکھوں ڈالر اور دنیاوی مراعات کی پرواہ نہ کی اور ملا صاحب کے ساتھ اپنے کیے گئے عہد کو وفا کیا۔
ملا صاحب نے ہمارے لیے یہ درس چھوڑا ہے کہ ایک چھوٹے طالب کے لیے بھی ممکن ہے کہ اپنے اخلاص کی بنیاد پر ایک عظیم انقلاب لے آئے، متکبرین کو شکست دے اور اسلامی نظام کے قیام کو ممکن بنا دے۔ انہوں نے ہمیں دکھا دیا کہ کیسے آزادی کی خاطر نہتے بھی جدوجہد کی جاتی ہے اور حقیقی آزادی کا تاج سر پر رکھا جاتا ہے۔
ایسے مدبر امیر ثالث عمر رحمہ اللہ کی یاد ہمیشہ تازہ رہے، ان کے افکار ہمیشہ زندہ اور ان کے انوارات ان کی قبر پر ہمیشہ قائم رہیں۔