موجودہ دور میں، جسے مصائب اور تبدیلیوں کا زمانہ سمجھا جاتا ہے، ہر ملک اور طاقت ایک ایسے جغرافیہ پر غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے جہاں سے وہ اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے، متوقع خطرے کو دور کرنے اور اپنی طاقت اور اختیار کو مزید ترقی کے لیے تیاری کر سکے۔
افغانستان جس کا ایک خاص سیاسی اور تزویراتی جغرافیہ ہے، برسوں تلک طاقتور لوگوں کے زیر تسلط رہا اور کوئی ایسی طاقت باقی نہیں رہے جس نے خود کو اس امتحان میں پیش نہ کیا ہو، لیکن الحمدللہ ہر بار اللہ کی مدد اورافغان عوام کی قربانیوں کی بدولت وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دینے کے بعد جب امارت اسلامیہ برسراقتدار آئی تو انہوں نے اسلامی نظام اور احکام الٰہی کے نفاذ کا اعلان کیا اور ان تمام لوگوں کے لیے جو دشمن کی صف میں اور مجاہدین کے خلاف کھڑے تھے اورکچھ عرصہ قبل تک وہ مجاہدین اور عوام کے خلاف کسی بھی قسم کے ظلم و ستم سے دریغ نہ کرتے تھے، ان کے لیے بھی امارت اسلامیہ نے عام معافی کا اعلان کردیا اور اب وہ اپنے ملک میں بغیر کسی پریشانی کے زندگی گزارسکتے اور کسی بھی انتظامی خدمت میں حصہ لے سکتے ہیں۔
لیکن دشمنان اسلام اپنے عزائم سے باز نہیں آتے اور ہمیشہ اس ملک کی سلامتی میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے داعش کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے اور اسی نام سے ہمارے ہم وطنوں خاص کر ہزارہ قوم پر حملے کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں اس منصوبے کے پشت پناہوں نے میڈیا میں ایسے افراد کو مقرر کر رکھا ہے جو ان حملوں کے بعد امارت اسلامیہ کے خلاف احتجاج کریں اور ان پر حملے کا الزام عائد کر کے مختلف طریقوں سے مذہبی اور لسانی اختلافات کو ہوا دیں، جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک بار پھر شیعہ سنی، فارسی اور پشتون اور دیگر قبائل کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکائیں۔
چند روز قبل دایکنڈی اور غور کے علاقے میلن میں ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی ان خود غرض اور سابق غلاموں نے کی تھی جو امارت اسلامیہ کے آتے ہی اپنی تمام طاقت کھو بیٹھے اوراپنے آقاوں سمیت تاجکستان، پاکستان اور امریکہ بھاگ گئے تھے، انہوں نے موجودہ حکومت کو کمزور کرنے اور اپنے آقاؤں کو دکھانے کے لیے یہ کوشش کی کہ امارت اسلامیہ ملک میں امن وامان کی فضا برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔
آخر میں یہ کہیں گے کہ امارت اسلامیہ افغانستان نے نہ کبھی بھی ظلم و جبر کیا اور نہ ہی اب کرتی یا اسے سراہتی ہے بلکہ امارت نے ہمیشہ بلاتفریق نسل ومذہب ایسے لوگوں کا مقابلہ کیا ہے جو اس جیسے معاملات میں ملوث ہوں، گزشتہ ۲۰ سالہ جہادی دور میں اور اس کے بعد انہوں نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے پوری قوت سے اپنی قوم کی حفاظت کی اورتمام دشمنوں کو پیغام دیا کہ جو بھی ایسی حرکتیں کرے گا اسے اس کے اعمال کی سزا ملے گی۔