بارہ برس قبل، اسی دن، افغانستان کی معاصر تاریخ کا ایک درخشاں ستارہ ۔۔ وہ مردِ مجاہد جس نے وطن کو تباہی اور بربادی کے دلدل سے نجات بخشی ۔۔ دنیائے فانی سے رخصت ہوا اور دربارِ حق میں حاضر ہوا۔
امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ، امارتِ اسلامی کے بانی اور پہلے امیر، وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے ایسے نازک وقت میں قیادت سنبھالی، جب وطن اندرونی وبیرونی بحرانوں میں گھرا ہوا تھا۔ لیکن ان کے پیشِ نظر ایک مبارک مقصد اور عظیم ارمان تھے۔
انہوں نے اپنی جہادی راہ میں بےشمار مصیبتیں اور آزمائشیں برداشت کیں، لیکن ان کی استقامت کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی جہاد کا دامن نہ چھوڑا اور نہ ہی میدانِ جدوجہد سے پیچھے ہٹے۔ کمیونسٹ حکومت کے سقوط اور خانہ جنگیوں کے آغاز کے بعد، افغانستان ایک نہ ختم ہونے والے بحران میں داخل ہو چکا تھا۔
ایسے ہی ایک تاریک دور میں ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ میدان میں اترے۔ طالبان تحریک کی بنیاد رکھی، خانہ جنگیوں کا خاتمہ کیا، اور پہلی مرتبہ افغانستان کی تاریخ میں ایک ایسا نظام قائم کیا جو خالص اسلامی شریعت پر مبنی تھا۔
امارتِ اسلامی افغانستان، خصوصاً اپنے ابتدائی برسوں میں، تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود، ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب رہی۔
جب افغانستان کی مظلوم عوام ملک کے مختلف حصوں میں ظلم و ستم کا شکار تھے، امارت اسلامی نے، ملا محمد عمر مجاہدؒ کی قیادت میں، عدل وانصاف کے ساتھ ساتھ امن وامان بحال کیا اور ان مجرم گروہوں کا راستہ روکا جنہوں نے وطن کو فتنہ و فساد کا شکار بنا رکھا تھا۔
امارتِ اسلامی نے اپنے پہلے پانچ سالہ دورِ حکومت میں افغانستان کی متعدد مشکلات کو حل کیا۔ افغان عوام نے ملک کے طول و عرض میں امن کی بہاریں دیکھیں اور وطن کو بحرانی کیفیت سے نجات ملی۔
اس وقت افغانستان ایک خودمختار اسلامی ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا، جس کا نظام اسلامی قوانین پر استوار تھا۔ گذشتہ ادوار میں رائج بدعنوانی، انتشار اور ملوک الطوائفی کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں ہوئیں۔
اسی دور میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے، شریعت پر مبنی عدالتی نظام نافذ ہوا، اور جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ملا محمد عمر مجاہدؒ ان اصولوں کے نفاذ کی ذاتی طور پر نگرانی کرتے اور ہمیشہ اسلامی قوانین و شریعت کے نفاذ پر زور دیتے تھے۔
۲۰۰۱ء میں جب امریکی قابض افواج اور ان کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا، تو امارتِ اسلامی کے مجاہدین نے عوامی نقصانات سے بچنے کے لیے شہروں سے پسپائی اختیار کی۔
لیکن یہ پسپائی، نہ تو جدوجہد کا خاتمہ تھی اور نہ ہی راہِ جہاد کی انتہا۔ امیرالمؤمنین ملا محمد عمررحمہ اللہ اور ان کی زیرِ قیادت تمام مجاہدین نے پسپائی کے باوجود مزاحمت جاری رکھی، اور باوجود اس کے کہ دنیاوی وسائل موجود نہ تھے، وقت کے طاغوت کے خلاف ثابت قدمی سے برسرِ پیکار رہے۔
امیرالمؤمنین ملا محمد عمرؒ نے کبھی بھی مغرب کے مطالبات اور دباؤ کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کیا، بلکہ عالمی اور اندرونی خطرات کے مقابلے میں بھی اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
وہ ایک عام رہنما نہیں تھے؛ قیادت کی بے مثال صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ، ان کا یقین تھا کہ ذمہ داریاں اصولوں کی بنیاد پر تقسیم ہونی چاہییں، نہ کہ شخصی وابستگیوں کی بنیاد پر، وہ دنیا کے دیگر لیڈروں کی طرح شہرت یا خودنمائی کے خواہاں نہیں تھے۔ ان کا معیار صرف اور صرف اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔
بالآخر ۱۳۹۲ھ (مطابق ۲۰۱۳ء) میں، امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ، امارتِ اسلامی کے بانی اور جارحیت کے خلاف جہاد کے علمبردار، اپنے رب سے جا ملے۔ یہ اندوہناک خبر، وقت کے تقاضوں اور جہادی مصلحتوں کی بنا پر، دو سال تک پوشیدہ رکھی گئی۔ اس خبر کو خفیہ رکھنا، ان قائدین جہاد کے فکر و تدبر کا نتیجہ تھا، جنہوں نے اپنی جان، مال اور اولاد کی قربانی دے کر شعائر اسلام اور وطن کی آزادی پر آنچ نہیں آنے دی۔
آج جب امارتِ اسلامی ایک بار پھر اس سرزمین پر حاکم ہے، تو ہر مجاہد اور مسلمان پر لازم ہے کہ شہداء کے خون کی اس امانت کی حفاظت کرے، اور ملا محمد عمرؒ جیسے سچے رہنماؤں کی قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دے۔
واقعی، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم مضبوط ایمان، عملی تقویٰ اور خالص خدمت کے جذبے کے ساتھ امارتِ اسلامی کی بنیادوں کو مستحکم کریں — اس نظام کو جو ہمارے کندھوں پر ایک سنگین اور ربانی امانت کے طور پر رکھا گیا ہے، اور جس کے استحکام کے لیے ملا محمد عمر مجاہدؒ جیسے عظیم لوگوں نے بغیر کسی دنیاوی توقع کے اپنی جانیں قربان کیں۔
آج ہم اس راہ کے راہرو ہیں جو ہزاروں شہیدوں کے خون سے رنگین ہے، اور ہم پر لازم ہے کہ اسلامی اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے توحید کا پرچم اس سرزمین پر بلند رکھیں۔