جانبار اور بطل امت، شہید سعید حافظ حمداللہ ’’بدر‘‘ تقبله الله، شین گل کے نورِ نظر اور صوبہ وردگ کے ضلع سیدآباد کی تحصیل آبدره کے گاؤں گېداخېلو کے رہائشی تھے۔ وہ ۱۳۷۵ ہجری شمسی مطابق ۱۹۹۶ء کو ایک غریب، دیندار اور مجاہد گھرانے میں پیدا ہوئے۔
بدر تقبله الله نے بچپن ہی میں یتیمی کے داغ سہے۔ ان کے والد اُس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب ان کا خاندان غربت کے ایام سے دوچار تھا اور خالی میدان میں بے یار و مددگار رہ گیا۔ بدر تقبله الله بچپن کی خوشیوں سے محروم رہے، ان کے خواب ایک ایک کر کے ٹوٹتے گئے۔ ان کا بچپن مشکلات، مشقتوں اور سختیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بدر تقبله الله اپنے گاؤں سے متصل ایک اور گاؤں میں چرواہا بن گئے، اور ناز و نعم، کھیل کود اور خوشیوں کا دور انہوں نے پہاڑوں کے دامن میں مویشی چراتے ہوئے گزارا۔
ان کے بھائیوں نے بھی ہمت نہ ہاری اور روزگار کے لیے ایران چلے گئے، جس سے ان کے معاشی حالات کچھ بہتر ہوئے۔ تب بدر تقبله الله نے تعلیم کی طرف توجہ دی۔
انہوں نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز ایک دینی مدرسے سے کیا۔ سب سے پہلے وہ اکاخېلو کے دینی مدرسے میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا، لیکن حفظ قرآن کا خواب مکمل نہ ہو سکا؛ تاہم وہ حافظ کے لقب سے مشہور تھے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ چپکے چپکے اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ جہادی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
ایک دن گذشتہ جمہوری نظام کی فوج نے اس مدرسے پر چھاپہ مارا۔ فوجیوں نے مدرسے کے طلبہ کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا، چھوٹے بچوں کو ایک طرف اور نسبتاً بڑے لڑکوں کو دوسری طرف۔ شہید حافظ صاحب بھی نوجوانوں کے گروپ میں شامل تھے۔ اس کے بعد فوجیوں نے درختوں سے ٹہنیاں توڑیں اور ان طلبہ پر وحشیانہ تشدد شروع کیا، جیسے درندہ صفت بھیڑیے پہاڑ سے اتر کر ہر چیز کو نوچتے ہوں۔ انہوں نے طلبہ کو اس قدر مارا کہ ان کی چیخیں دور دور تک سنائی دے رہی تھیں۔
اس واقعے کے بعد حافظ صاحب نے اکاخېلو کے مدرسے کو خیر باد کہا اور اپنے گاؤں کے تعظیم القرآن مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ ابھی انہوں نے درجہ موقوف علیہ مکمل بھی نہ کیا تھا کہ اپنے ارمانوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہوگئے۔
جہاد کی محبت اس پر غالب تھی اور اسی جذبے کے باعث اس کی تعلیمی مصروفیات پر اثر پڑا، مدرسے کے ماحول میں اس کی حاضری کم ہو گئی۔ وہ اکثر اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا: ’’آؤ دشمن کے خلاف سڑک کنارے گھات لگائیں! آؤ بارودی سرنگ نصب کرنے چلیں! آؤ…‘‘۔
جب وہ جہادی تشکیل میں شرکت کے لیے صوبہ ننگرہار گیا، تو کچھ عرصہ بعد اس کی والدہ کو اس کی خبر ہوئی۔ اس پر اس کی والدہ کو اعصابی تکلیف اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس پر شہید بدر تقبله الله بہت رنجیدہ ہوا۔ وہ ہر وقت اپنی ماں کو یاد کرتا رہتا۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان وہ اپنے اعلیٰ اخلاق، پرہیزگاری اور دیانت داری کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا خواب میں دیکھتا۔
چونکہ بدر تقبله الله جہادی سرگرمیوں میں ایک باعہد، دلیر اور بہادر نوجوان تھا، اسی لیے اپنے ساتھیوں کے مطالبے پر وہ ننگرہار صوبے میں خارجی داعشیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے مجاہدین بھائیوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔
راستے میں وہ مختلف قسم کی سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرتا رہا۔ یہ وہ دن تھے جب شدید بارشیں ہو رہی تھیں، کئی مقامات پر گاڑیاں کیچڑ میں بری طرح پھنس گئیں۔ مجاہدین گاڑیوں سے اترتے، انہیں دھکا دیتے تاکہ گاڑیوں کو کیچڑ سے نکالا جا سکے۔
ان مشکل اور پیچیدہ راستوں پر چار دن کے سفر کے بعد وہ ننگرہار پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی بدر تقبله الله فوراً محاذِ جنگ کی صفِ اول میں جنگ کے لیے روانہ ہوا اور خوارج کے ساتھ دو بدو لڑائی شروع کی۔ تقریباً دس دن تک وہاں نہ کھانے پینے کا بندوبست تھا، نہ ہی رہائش کا کوئی انتظام۔ اس علاقے میں داعش کی تعداد بہت زیادہ تھی، لیکن ان تمام سخت حالات کے باوجود شہید بدر تقبله الله نے کبھی تھکن کا اظہار نہیں کیا؛ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک نرم سی مسکراہٹ رہتی تھی۔
ایک دردناک منظر کی روداد، شہید بدر تقبله الله نے خود اپنے ایک ساتھی کو اس طرح سنائی تھی:
’’ایک دن فجر کی نماز کے بعد ہم نے جلدی سے جنگ کی تیاریاں کیں؛ بیگ پشت پر، جوتے پاؤں میں اور ہتھیار کندھوں پر ڈالے، اور ہم ننگرہار کے ان سیاہ، بدقسمت اور خونریز پہاڑوں میں اپنے دس ساتھیوں کے ساتھ، جو سب فوجی وردیوں میں ملبوس تھے—ایک سمت چل پڑے۔
ساتھیوں کی خاموشی، درختوں کی شاخوں اور پتوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی کرنیں، قدموں کی آہٹیں، اور دور ایک پرندے کی اداسی و غم سے لبریز آوازیں، سب نے مل کر ایک خوفناک منظر بنا دیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ پرندہ اپنے غم بیان کر رہا تھا یا ہمارے مستقبل پر ماتم کر رہا تھا۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ کچھ ہی لمحوں بعد یہی خوبصورت پودے، یہ ہرے بھرے درخت اور ان پہاڑوں کے سفید پتھر میرے ساتھیوں کے خون سے رنگین ہو جائیں گے۔
اچانک آسمان پر، پہاڑ کی ایک گھاٹی میں وہ ہولناک خاموشی ٹوٹ گئی۔ بندوقوں کی گرج، درختوں کی شاخوں کے ٹوٹنے کی آوازیں، اور ایک ایک کر کے ساتھیوں کے زمین پر گرنے کی صدائیں گونجنے لگیں۔ دشمن کس سمت سے وار کر رہا تھا، کچھ پتہ نہ چل رہا تھا۔ میں نے خود کو نیچے پانی میں پھینک دیا، پانی نے مجھے دشمن کی نگاہ سے چھپا لیا یا شاید دشمن نے سمجھا کہ میں بھی مارا گیا ہوں۔
جب دشمن واپس چلا گیا، میں پانی سے باہر نکلا۔ اسلام کے ان دشمنوں، مؤمنوں کے خون کے پیاسوں، مغرب کے تربیت یافتہ فتنہ گروں نے درختوں پر بیٹھ کر ہم پر گھات لگائی تھی۔
جب میں حملے کی جگہ پر پہنچا، تو سبز درختوں کے نیچے ایک ایسا منظر موجود تھا جو شاید قیامت کے دن بھی اتنا سخت نہ ہو۔ میرے نو ساتھی خون میں لت پت، گولیوں سے چھلنی، بکھرے پڑے تھے، یوں لگتا تھا جیسے کسی ظالم نے گولیوں کی بارش کر دی ہو۔ ان کے زخموں سے بارود کی بو اٹھ رہی تھی۔ میں ساکت و حیران کھڑا تھا، میرے قدم لڑکھڑا گئے، بندوق میرے ہاتھوں سے گر گئی، اور میں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اپنی قسمت پر میں چیخ چیخ کر رویا۔ دس ساتھیوں میں سے صرف میں زندہ بچا۔‘‘
ایک رات دیر گئے داعش کی طرف سے پوری صف اول پر شدید حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں کئی مجاہدین شہید ہو گئے، مجاہدین کی صفین ٹوٹ گئیں اور علاقہ داعشیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
اسی محصور حالت میں شہید بدر تقبله الله اور چند دوسرے مجاہد ساتھیوں نے غیر معمولی حوصلے اور دلیری کا مظاہرہ کیا، کافی دیر تک دشمن سے لڑتے رہے۔ جب صبح کی کرنیں پھیلنے لگیں، تو بدر اور اس کے ساتھی بخیروعافیت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ ایک نہایت دلیر، منکسر المزاج اور صابر انسان تھا۔ صرف ایک دن کے آرام کے بعد دوبارہ اسے کماندانوں نے اگلی صفوں پر بھیج دیا۔
داعشیوں سے دو میٹر کے فاصلے پر آمنا سامنا:
ایک موقع پر بدر تقبله الله اور اس کے کئی ساتھی ننگرہار کے ایک علاقے میں خوارج (داعشیوں) کو نکالنے اور علاقے کو ان کے گندے وجود سے صاف کرنے کے لیے سرچ آپریشن کے لیے قریہ بہ قریہ کارروائی کر رہے تھے۔ رات کے وقت ایک مسجد میں ان کا دشمن سے آمنا سامنا سامنا ہوا۔
ساتھیوں نے گمان کیا کہ سامنے والے بھی مجاہدین ہوں گے، اس لیے آواز دی: ’’آپ لوگ کون ہیں؟‘‘ داعشیوں نے جواب دیا: ’’تم کون ہو؟‘‘
بدر نے کہا: ’’ہم مجاہدین ہیں۔‘‘ فوراً داعشیوں نے حملہ کر دیا، جس میں کئی مجاہدین شہید ہو گئے۔ ان میں سے ایک شہید کی لاش تقریباً ۶ ماہ تک وہیں پڑی رہی۔ اس حملے سے بھی بدر رحمہ اللہ بخیروعافیت بچ نکلا تھا۔
شہادت:
بالآخر داعشی خوارج کے خلاف صف اول کا مجاہد، تھکا ہارا مگر پُرعزم، حافظ حمدالله ’’بدر‘‘ تقبله الله، ۱۳۹۹/۹/۷ ہجری شمسی کو ننگرہار کے شنيز درے علاقے کے ملی خیلو گاؤں میں، ایک اور مجاہد ساتھی کے ساتھ جب وہ موٹر سائیکل پر سوار تھا، دشمن کے ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا اور شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گیا۔
نحسبه کذلک والله حسيبه۔