مغرب ہماے نوجوانوں کو کیوں پناہ دیتا ہے؟

حسان مجاہد

جب غزوۂ تبوک سے تین صحابہ کرام، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رضی اللہ تعالیٰ عنھم) بلا عذر پیچھے رہ گئے، تو اس وقت غسان نامی ایک عیسائی بادشاہ نے کعب بن مالک کو ایک خط بھیجا، جس میں لکھا تھا:

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے بے وفائی کی ہے، تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری بہت عزت افزائی کریں گے اور تمہاری قدر کریں گے۔

لیکن کعب رضی اللہ عنہ بادشاہ غسان کی سازش کو خوب سمجھ رہے تھے اور انہوں نے اس کا خط جلا ڈالا۔

یہاں ٹھہر کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک کافر بادشاہ آخر کیوں ایک نوجوان صحابی کو ہمدردی اور غمخواری کا خط بھیجتا ہے لیکن دو پختہ عمر اور پرانے صحابہ کرام مرارہ اور ہلال (رضی اللہ تعالیٰ عنھما) کو ایسا کوئی تجویزی خط نہیں بھیجتا؟

کفار کی اس طرح کی سازشیں آج بھی جاری ہیں۔ اسلامی معاشروں میں دیندار نوجوان مرد اور عورتوں کو مختلف طریقوں اور بہانوں سے مغرب جانے کی ترغیب دی جاتی ہے، جیسے: تعلیم و ترقی کا فقدان، بے روزگاری، معاشی مسائل، انسانی حقوق کا عدم تحفظ وغیرہ۔

نتیجتا اسلامی معاشروں کی نوجوان نسلیں مغربی تہذیب و تمدن کو اپنا لیتی ہیں، اپنے دین (اسلام) اور اسلامی تہذیب کے خلاف دشمنی شروع کر دیتی ہیں، باطل کے پیروکار اور حق کے دشمن بن جاتی ہیں، اسلام سے بڑھ کر کفر کو فائدہ پہنچانے لگتی ہیں اور مستقبل میں پھر یہی مغربی تربیت یافتہ لوگ عالم اسلام میں حکمران بن جاتے ہیں۔

آج اگر ایک طرف حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کے لیے کام اور تعلیم کی فکر کرے اور اس کے لیے مواقع فراہم کرے، اسی طرح نوجوان نسل کو بھی چاہیے کہ کعب بن مالک (رضی اللہ عنہ) کی طرح کفار کی میٹھی میٹھی باتوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ انہیں اپنا ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے اور اپنے ملک میں اپنی مسلمان عوام کی خدمت کرنی چاہیے۔ کیونکہ کفار مسلمانوں کے کسی بھی طور دوست نہیں ہو سکتے۔ وہ لوگ جو ملک سے باہر جا چکے ہیں، کئی قسم کے مسائل میں شب و روز گزار رہے ہیں۔ اس کی بہترین مثال ملک سے باہر کیمپوں میں مقیم افغانی ہیں۔

Author

Exit mobile version