اسلامی نظام میں کفار کے ساتھ تعامل کے اصول! دوسری اور آخری قسط

بشیر باران

اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی عرب معاشرے میں بڑی تبدیلیاں آئیں، اور وہ قبائلی زندگی سے ایک اجتماعی اور متمدن معاشرے میں تبدیل ہوا، اسے ایک شناخت ملی، خاندانی، فوجداری قوانین، تجارتی لین دین اور دیگر قوانین کی بنیاد پر اسے ایک منتشر قبائلی ڈھانچے سے ایک متحد امت میں بدل دیا گیا۔ اسلامی قانون کی حاکمیت کی بنیاد پر ایک مرکزی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مفادِ عامہ، بنیادی حقوق اور دیگر انسانوں کے ساتھ تعامل اور اسلام کی دعوت کا درس دیا۔

عظیم پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم تبدیلی کے رہنما کے طور پر ایک ایسی موثر شخصیت تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اسلامی معاشروں بلکہ کافر معاشروں پر بھی اثر ڈالا اور اپنی مدبرانہ سیاست اور طرز عمل کے ذریعے جہاد کے بغیر بھی اپنوں اور غیروں کو اپنا بنا لیا۔ انہوں نے اصولوں کی بنیاد پر تعامل اور احکامِ اسلام کی روشنی میں عالمی اصولی تعلقات کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا خاکہ پیش کیا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیاسی بصیرت کا یورپ کے سولہویں اور سترہویں صدی کے دانشور بھی کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ ژان ژاک روسو، والٹیر، شوپن ہاور اور دیگر نے اس سلسلے میں تبصرے لکھے ہیں۔ ان میں سے مارسل کہتا ہے: اسلام کا عالمی نقطہ نظر دو طاقتور امتیازات کے ساتھ نمایاں ہے، ایک خدا پر ایمان اور دوسرا ہر قسم کے قومی اور نسلی تعصب اور خود کو برتر سمجھنے سے انکار اور انسانوں کی برابری پر زور۔

ان اصولوں کے اعلان کے ذریعے اسلام کے عظیم پیغمبر مکہ کے جاہل عربوں اور یہودی قبائل کے قومی اور نسلی تعصب کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسلام کے علاوہ کسی بھی دین نے انسانوں کو وہ حیثیت نہیں دی جو اس مبارک دین نے بخشی ہے۔ اس نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا۔ اسلام ایک ایسی دنیا بنانے کا عزم رکھتا ہے جہاں تمام انسان تفاهم اور تعاون کے ساتھ برابری کی زندگی بسر کریں۔

اسلام کے عالمی تعلقات کی تاریخ بہت واضح اور روشن ہے۔ جب عرب قبائل اور ان کے پڑوسی ممالک جیسے حبشہ، امارات، حیرہ، غسان اور سبا کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے اور ان کے درمیان ہمیشہ تنازعات رہتے تھے، لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اس سلسلے میں عالمی تعلقات پر زور دیا اور ایک ایسی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف دورِ رسالت میں بلکہ ان کی رحلت کے بعد اسلامی حکومتوں کے لیے عالمی تعاملات اور تعلقات کی بنیاد فراہم کی۔

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دورِ رسالت میں میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ اور نجران کے نصاریٰ کے ساتھ دائمی صلح کے معاہدے پر دستخط کرکے عالمی نظم و نسق اور تعلقات کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے عرب قبائل کے درمیان تعلقات کو منظم کیا اور اسلامی حکومت کے اندرونی امور کو مضبوط کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پڑوسی حکومتوں کے ساتھ تعلقات پر توجہ دی، نمائندے بھیجے اور معاہدے ترتیب دیے۔

اس وقت کے حالات میں روم اور فارس کو نمائندے بھیجنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ عالمی تعلقات کی تاریخ میں تعلقات کے قیام اور ترقی کے نمایاں اقدامات تھے۔ روم اور فارس کی دو بڑی سلطنتوں کے نازک ماحول میں پڑوسی اور چھوٹی حکومتوں کے ساتھ تعلقات اور پھر عالمی سطح پر خود کو آگے لانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجہ پالیسی اور مؤثر سفارت کاری کا درس دیتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ دونوں سلطنتیں اس سیاسی پالیسی اور اسلام کی حقانیت کے سامنے سرنگوں ہوئیں۔

Author

Exit mobile version