اعتراض:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ تو کیا کفار کے لیے بدعا تک نہیں کی، طائف کا سفر اور وہاں آپ صلی اللہ وسلم کی سیرت اس کا بہترین ثبوت ہیں۔ دین اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ اور اخلاق حسنہ سے ہوئی۔
جواب:
ایسی باتیں صرف وہی کر سکتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بالکل ناواقف ہو، جسے اسلام کی روح کا پتہ نہ ہو، جسے کفار اور ان کی سیاستوں کا علم نہ ہو۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر صبر و تحمل سے کام لیا لیکن بہت سی جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات روانہ کیے اور خود بھی ایک جنگی کمانڈر کے طور پر ان میں حصہ لیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعا بھی کی، کبھی کفار کا نام لے کر اور کبھی نام لیے بغیر۔
مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا عتبہ بن ابو لھب کے نکاح میں تھیں اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا عتیبہ بن ابو لھب کے نکاح میں تھیں۔
جب سورۃ لھب نازل ہوئی تو ابو لھب نے قسم کھائی کہ جب تک تم دونوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دیتے تب تک تم دونوں سے بات نہیں کروں گا۔ ان دونوں نے طلاق دے دی لیکن عتیبہ نے طلاق کے ساتھ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو مزید نازیبا الفاظ بھی کہے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی، تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ، اپنی مخلوق کے کتوں میں سے ایک کتا عتیبہ پر مسلط کر دے، بعد میں وہ خبیث اسی طرح مارا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو ذلیل کرنے کے لیے نماز فجر میں ایک ماہ تک قنوت نازلہ کی تلاوت کی۔
سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے درجنوں واقعات ہیں اور بعض مواقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے نام لیے اور ان کے لیے بدعا کی۔
غزوات اور سرایا کی بحث پر تو کوئی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
الغرض: سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف دعوت، تبلیغ اور اخلاق حسنہ تک محدود کر دینا، دین اسلام کے ساتھ عظیم بے وفائی اور ظلم ہے اور کفار کے غلبے کے لیے ان کے ساتھ مدد و تعاون کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین