امارت اسلامیہ کے خلاف داعشی خوارج کے پروپیگنڈے اوراعتراضات کا شرعی جائزہ! پچیسویں قسط

مولوی احمد علی

اندلس کے کچھ غدار کمانڈروں اور جنگجوؤں کے بارے میں ایک استفتاء پر اُس وقت کے علمائے کرام کا جواب:

جب اندلس اور مغرب اسلامی کی دفاعی ودینی صورتحال ضعف کی طرف مائل ہوئی اور صلیبی طاقتور ہو گئے، تو بہت سے ایسے بے ضمیر مسلمان بھی تھے، جو صلیبیوں کی فوج میں شامل ہو گئے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں بہادری دکھاتے، اور ان بہادریوں پر انعامات اور تمغے لیتے۔ ان میں ایک ’’لُنور‘‘ کے نام سے تمغہ بھی تھا، جس پر صلیبی بادشاہ کی تصویر ہوتی۔

ان بے ضمیر مسلمانوں کے بارے میں اُس وقت کے علماء سے ایک استفتاء کیا گیا، جسے محمد المہدی نے ’’النوازل الصغریٰ‘‘ جلد اول، صفحہ ۴۱۴ پر نقل کیا ہے۔ استفتاء میں درج ذیل سوالات کیے گئے:

۱۔ کیا یہ لوگ مرتد (اسلام سے پھرنے والے) شمار ہوں گے یا نہیں؟ اور اگر آپ انہیں مرتد کہیں، تو جب ہم ان پر غالب آئیں، تو کیا ان سے توبہ کروائی جائے گی یا نہیں؟

۲۔ ان کی عورتوں کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ بھی انہی کے حکم میں داخل ہوں گی یا ان کا حکم الگ ہوگا؟

۳۔ اگر ان کی عورتیں بھی مرتد ہوں، تو کیا ان کو قتل کیا جائے گا؟ یا ان سے توبہ طلب کی جائے گی؟ یا انہیں لونڈیاں بنایا جائے گا؟ جیسا کہ ابن الماجشون سے منقول ہے؟ یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟

۴۔ ان کی اولاد کا کیا حکم ہوگا؟ کیا ہمیں ان کے بچوں کو غلام بنانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اور جو اجماع (اتفاقِ رائے) ابن بطال نے نقل کیا ہے کہ مرتد کی اولاد غلام نہیں بنائی جا سکتی، تو کیا یہ اجماع ساقط ہو جاتا ہے ابن وہب اور جمہور شوافع کے اقوال کی روشنی میں؟

۵۔ کیا یہ لوگ مرتد کی حیثیت سے اصل کافر (یعنی پیدائشی کافر) کے حکم میں آتے ہیں یا نہیں؟

۶۔ کیا ہمارے لیے ان ’’نوازل‘‘ (نوازل: غیر معمولی و نئی صورتِ حال) اور ان جیسے دیگر معاملات میں ان اقوال پر عمل کرنا جائز ہے جو امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب، جیسے ابنِ وہب اور ان جیسے دیگر فقہاء سے منقول ہیں؟

یہ استفتاء اور اس کا جواب درج ذیل ہے

استفتاء:

وبعد، یا سیدي! فما حکم الله في هؤلاء الذین دخلوا تحت حکم الکافر وتولوه بالمعاضدة والممازجة ویقاتلون معه ویأخذون مرتب الکافر کما هي عادة الجند، ومن ظهرت شجاعته في قتالهم المسلمین یجعلون له علامة یسمونها "لُنور”، علیها صورة سلطانهم، هل مرتدون أم لا؟ وإن قلتم بردتهم هل یستتابون إذا ظفرنا بهم أم لا؟

وما حکم نسائهم هل هنّ کرجالهم أم لا؟ وإن قلتم بردتهن، هل یقتلن أو یستاتبن أو یسترقن کما نقل عن ابن الماجشون أم لا؟ وما حکم ذراریهم، هل لنا سبیهم أم لا؟ وهل ما حکاه ابن بطال من الإجماع على أن المرتد لا تسبى ذریته منقوض بما نقل عن ابن وهب وعن جمهور الشافعیة: أن المرتد کالکافر الأصلي، أو لا؟ وهل یسوغ لنا العمل بما ینقل عن أصحاب مالک رضي الله عنه، کابن وهب وأمثاله في هذه النوازل وأمثالها بما لم یشهره المتأخرون أم لا؟

فأجاب: الحمد لله فجواب ما أشرت إلیه في کتابک من المسائل أن اللائذین بالنصاری المقاتلین معهم قال فیهم البرزلي في القضاء من نوازله ما نصه:

احفظ أن المعتمد بن عباد استغاث بهم في حرب المرابطین، فنصرهم الله علیه وهرب هو، ثم نزل على حکم یوسف بن تاشفین أمیر صنهاجة، فاستفتى فیه الفقهاء فأکثرهم أفتى أنها ردّة، وقاضیه مع بعضهم لم یروها ردّة، ولم یبح دمه بالردّة فأمضى ذالک من فتواه، ولم یبح دمه، وأخذ بالأیسر، ونقله إلى إغمات وأسکنه بها إلى أن مات بها (ھ) ونقله الزیاتي في نوازله بواسطة السکتاني ویؤده ما في ابن جوزي على قوله تعالی: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ ونصه: من کان یعتقد معتقدهم فإنه منهم من کلّ وجه، ومن خالف معتقدهم وأحبهم فهو منهم في المقت عند الله واستحقاق العقوبة (ھ) وقال الغزالي في کتاب التفرقة بین الإیمان والزندقة مانصه: فالذي ینبغي الاحترزعن التکفیر ما وجد إلیه سبیل، فإن استباحة دم المصلين المقرين بالتوحید خطر، والخطاء في ترک التکفیر أهون من الخطاء في دم مسلم.

جواب:

جناب! ’’النوازل الصغریٰ‘‘ میں ارتداد (مرتد ہونے) کا کوئی واضح فتویٰ نہیں دیا گیا، بلکہ اس میں ابن جوزیؒ کے قول کے مطابق اس شخص کے مؤقف کی ترجمانی کی گئی ہے جو اس موضوع میں ارتداد کو صرف عقیدے کی خرابی (یعنی اعتقادی خبث) تک محدود کرتا ہے۔ یہی موقف سلف صالحین، اور اہل سنت والجماعت کے اکثر مفسرین، محدثین، اور ائمہ اربعہ کا ہے۔

اسی طرح، مغربِ اسلامی کے ایک علاقے کے کچھ مسلمان کفار کے خلاف اس علاقے کے ایک جہاد میں شریک ہوئے۔ جب وہ واپس لوٹے، تو اس علاقے کے حکمران نے ان پر انتہائی سخت سزائیں نافذ کیں۔ انہیں گلیوں میں پھرایا گیا، ان کا اعلان کیا گیا کہ جس نے ایسا کیا، اس کی یہی سزا ہو گی، اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔

بعد ازاں، مغرب اسلامی کے ایک دوسرے حکمران نے اس حکمران کے اس عمل کے بارے میں علماء کرام سے استفتاء کیا۔

یہ واقعہ ’’النوازل الصغریٰ‘‘ جلد اول، صفحہ ۴۱۰ میں محمد المہدیؒ نے نقل کیا ہے۔ اس پر جو جواب دیا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

اگر ان سزاؤں کا مقصد صرف اس لیے تھا کہ اس ظالم حکمران کو کفار کے دین سے محبت تھی، اور وہ اسی تناظر میں ان کفار کی مدد کر رہا تھا، تو یہ کھلا کفر ہے، اور ایسے حکمران کے کفر میں کوئی شک نہیں رہتا۔

لیکن فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا احتمال اس شخص کے بارے میں بہت بعید (یعنی بہت کمزور) ہے، جو بظاہر مسلمان کہلاتا ہو۔

درج بالا سوال اور اس کا جواب درج ذیل ہے:

وسئل الشیخ التاودي من قبل مولانا المنصور بالله سیدي محمد بن عبد الله العلوي رحمهم الله أیام حصره على ثغر أملیلیة أو آخر سنة ثمان مائة وثمانین ومائة وألف، بما نصه:

الحمد لله، العلامة الأفضل السید التاودي ابن سودة سلام الله وبرکاته، أمّا بعد، فإنه ظهر من الترک أن بعض المسلمین ممن شملتهم ولایتهم حضروا معنا هذا الجهاد، فلمّا رجعوا إلیهم أباحوا دماءهم وروّعوا أولیاءهم وتعاقدوا على أن یکون هذا جزاءهم، فانظروا إلى هذا الفعل القبیح، وهل یفعله إلا کفور صریح والآن خط لنا ما تحکمه الشریعة المطهرة فیهم، والسلام.

فأجاب فإن كان قتله لمن جاهد نصرةً لأعداء الله وحمیة ومحبة في دینهم، فهذا خلع من عنقه ربقة الاسلام، واستحق أن یلحق بمن عبد الأوثان والأصنام وأجاب بعده الشیخ بناني تغمده الله برحمته فقال: الحمد لله، والله المؤفق للصواب، إن الذي يفعل ذالك بالمسلمين لا شك في فسقه وظلمه وجوره، وأنه من أهل العظائم في الدين وذوي الكبائر من المفسدين يجب كل من قدر عليه وتمكن أن يكف أذاه عن المسلمين.

فقد روى ابن ماجه بإسناد حسن عن البراء بن عازب رضي الله عنه أن النبيّ صلى الله علیه وسلم، قال: "لزوال الدنیا جمیعا أهون على الله من قتل مؤمن بغیر حقّ” هذا الوعید فیمن قتل مطلق المسلمین، فکیف بمن یتعدى على المجاهدین الذین قاموا بهذه الوظیفة العظمى عن غیرهم من المؤمنین فإن قلت: فهل على هؤلاء المؤمنين المقتولين درك حيث توجهوا للجهاد بغير إذن واليهم المذكور؟ قلت: لا درك عليهم في ذالك حيث كان من ولاة الجور، كما ذكر في العتيبة.

قال ابن وهب: إن كان الإمام عدلا لم يجز لأحد أن يبارز العدوَ أو يقاتله إلا بإذنه وإن كان غير عدل فليقاتل وليبارز بغير إذنه. قال ابن رشد: وهذا- كما قال- إذا كان الإمام غير عدل لم يلزم استئذانه في مبارزة ولا قتال (ھ) وقول الظالم في النداء عليهم عند الإطافة بهم: هذا جزاؤهم وجزاء من يفعل مثل فعلهم، يحتمل أن يكون مراده أن ذالك جزاءهم على قصدهم الجهاد بغير إذنه أو أنه جزاءهم على قصدهم الجهاد في تلك الجهة المخصوصة، أو على قصدهم له مع خصوص القوم الذين توجهوا لنصرتهم والجهاد معهم، وعلى كل هذه الاحتمالات ففعله من الكبائر، والواجب على من قدر عليه أن يمكن أولياء الدم من أن يقتصوا منه.

قال الله تعالى: ﴿وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا﴾ ولا يكون كافرا بذالك الفعل، إذ لا يكفر أحد بذنب من أهل القبلة كما في الرسالة. نعم إن كان قصده بالمنع من الجهاد محبة الكفر ونصرة اهله فلا إشكال في كفره، لكن هذا الاحتمال بعيد بحال من هو موسوم بالاسلام، وحينئذ فيحمل على أنه عاص من أهل الكبائر تجب عقوبته، وعقوبة كل من تمالأ معه على ذالك الفعل الشنيع، وإقامة حد القصاص عليهم كما ذكرنا، والله سبحانه أعلم.(ھ)

Author

Exit mobile version