داعش کی پروپیگنڈا حکمتِ عملی اور سوشل میڈیا! دوسری اور آخری قسط

نعیم باران

چونکہ آج کل میڈیا کا دور ہے اور سوشل میڈیا وسیع پیمانے پر لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، تو داعشی خوارج بھی اپنے آقاؤں کی طرف سے دیے گئے وسائل سے اعلیٰ درجے کے ویڈیو اسٹوڈیوز اور کیمرے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ سر قلم کرنے، پھانسی دینے اور دیگر وحشیانہ اقدامات یا صحرائی عدالتوں کے مناظر کو دستاویزی شکل میں ریکارڈ کر کے شائع کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو مرعوب کیا جائے اور وہ خوف و وحشت جو ان وحشیانہ افعال کے نتیجے میں خود ان کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے، اسے عوام کی نظروں سے چھپایا جا سکے۔ ان ویڈیوز کی داعش کے ذمہ داران کی طرف سے بھرپور تشہیر کی جاتی ہے، اور کچھ ایسے میڈیا چینلز بھی انہیں نشر کرتے ہیں جو صحافت کے تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے، داعش کے حامیوں کی مالی معاونت سے چل رہے ہیں۔

یہ میڈیا ادارے اس طرح دینِ اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ یہ نام نہاد مجاہدین اور اسلامی اعمال ہیں، اس پورے سلسلے کو اسلام کو بدنام کرنے اوراس کی توہین کرنے کا ایک مشترکہ خفیہ منصوبہ کہا جا سکتا ہے۔

داعش نے اپنی کارروائیوں اور چہرے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے متعدد مصنفین اور ایسے علماء کو بھی بھرتی کیا ہے جو ظاہری طور پر مسلمان، عالم اور مولوی نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ خارجی فکر و ثقافت کے حامل غیر ملکی انٹیلیجنس اداروں کے ایجنٹ اور اجرتی کارندے ہیں۔ یہ لوگ پیسوں، سہولتوں اور مادی مفادات کی خاطر دین اور اسلامی اقدار کے نام پر ہر حد پار کرتے ہیں اور اپنے انجام کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

داعش سے منسلک میڈیا میں ایسی کئی تحریریں اور اعلامیے موجود ہیں جنہیں ان کرائے کے نام نہاد علماء اور مصنفین نے آنکھیں بند کرکے اس تنظیم کی تعریف میں لکھے ہیں۔ ان کا مقصد نوجوانوں کو گمراہ کرنا اور انہیں راہ راست سے ہٹانا تھا، لیکن خوش قسمتی سے حقیقی مجاہدین، مسلمان مصنفین اور اہلِ فکر و دانش نے ان کا بروقت اور مدلل جواب دیا، جس کے نتیجے میں ان اجرتی کارندوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا۔

بدقسمتی سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا دنیا بھر خصوصاً یورپ میں، داعش کے لیے آن لائن بھرتیوں اور مالی حمایت حاصل کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں متعدد افراد صرف انہی پیغامات اور نعروں کی وجہ سے داعش کے جھانسے میں آکر گرفتار ہوئے اور بعض نے اپنی غلطی کا برملا اعتراف بھی کیا، کیونکہ آن لائن نیٹ ورکس ان کے لیے موبائل اور دیگر ذرائع کی نسبت سستے اور آسان ذرائع ثابت ہوئے ہیں۔

تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ تمام ادارے اور گروہ جو میدانِ جنگ میں شکست کھا جاتے ہیں، وہ پھر تہذیب وثقافت کے ذریعے گمراہی اور فکری تسلط کا راستہ اپناتے ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جنگ بھی ان کی عسکری شکست کی طرح ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے اور انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کے یہ تمام اقدامات اور تحریریں دراصل ان کے ناکام مشن کی آخری جھلک پیش کرتے ہیں، جو تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

Author

Exit mobile version