اسلام میں فلسفۂ جہاد | اکتیسویں قسط

طاہر احرار

اعتراض:

ایسے اکثر لوگ جو خود کو بہت دیندار ظاہر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق کے زور پر قائم ہو سکتا ہے۔

آپ دیکھیے! وہ ممالک جو اخلاق کے زور پر اسلام میں داخل ہوئے، وہ آج بھی مسلمان ہیں، اور جو ممالک تلوار کے زور پر اسلام میں داخل ہوئے، وہ اسلام سے خارج ہو چکے۔ جیسے اندلس، بخارا، سمرقند، ایران وغیرہ۔

جواب ۱:

اس کے پیچھے وہ جاہلانہ ذہنیت کارفرما ہے جو تلوار اور بندوق کو اخلاق کے منافی گردانتی ہے۔ یہ جملہ اسلام کی روح اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت سے لاعلمی کے مترادف ہے۔

جواب ۲:

اس بات کو قاعدہ اور کلیہ بنا لینا کہ وہ ممالک جو تلوار کے ذریعے مسلمان ہوئے وہ اسلام سے دوبارہ نکل گئے اور جو اخلاق کے ذریعے مسلمان ہوئے وہ آج بھی مسلمان ہیں، ایک غلط اور فاسد دلیل ہے۔

مدینہ منورہ کے پڑوس میں بنو نظیر اور بنو قریضہ تلوار کی دھار پر فتح ہوئے، مکہ مکرمہ میں، جو اسلام اور مسلمانوں کا مرکز مانا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے دس ہزار کا لشکر ہاتھوں میں تلوار اٹھائے تکبیر کے نعرے لگاتا داخل ہوا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں فارس میں، ابو عبیدہ بن جراح کی قیادت میں شام کی جانب، اور حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں مصر کی جانب روانہ کیا، انہوں نے کفار کی کھوپڑیاں اڑائیں اور خزانوں کی کنجیاں امیر المومنین تک پہنچائیں، لیکن آج تک وہ ممالک بھی اور وہاں کے لوگ بھی الحمد للہ مسلمان ہیں جیسے مکہ مکرمہ، خیبر، حنین، مصر وغیرہ۔

جواب ۳:

یہ بات یہ یہ رائے اور خیال کہ جو ممالک تلوار سے فتح ہوئے ، وہ اسلام سے دوبارہ نکل گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی تاریخ پر تنقید کرنا ہے، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اچھا کام نہیں کیا، اور یہ کلمہ کفر ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے توبہ کریں اور زندگی میں ایک بار پھر کلمہ توحید پڑھیں۔

جواب ۴:

یہ بات لوگوں کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جہاد کا مقصد لوگوں کو مسلمان بنانا نہیں، بلکہ اسلام کی شان و شوکت میں اضافہ کرنا ہے۔ اسلام میں لوگوں کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ چاہے اسلام قبول کر لیں یا کفر اختیار کیے رکھیں۔ یہی سنتِ نبی اور سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

Author

Exit mobile version