اسلام میں فلسفۂ جہاد | تیسویں قسط

#image_title

طاہر احرار

 

اعتراض:

 

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دین اخلاق کے ذریعے سے پھیلا اور کفار اسلام میں اخلاق کی بنیاد پر داخل ہوتے ہیں نہ کہ جہاد اور جنگ کی بنیاد پر۔

اگر ہمارے اعمال و اخلاق درست ہو جائیں تو تمام لوگ مشرف با اسلام ہو جائیں، اور اگر ہمارے اخلاق اچھے نہ ہوں، تو لوگ اسلام سے نفرت کریں گے، اس لیے اہم چیز جہاد نہیں اخلاق ہے۔

 

جواب:

 

آئیں! سب سے پہلے اخلاق سمجھتے ہیں

 

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں:

 

وَإِنَّكَ لَعَلىٰ خُلُقٍ عَظيمٍ

بے شک آپ اخلاق حسنہ کا بہترین نمونہ ہیں۔

 

حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟

 

حضرت عائشہ نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کریم تھے، یعنی جو چیز قرآن کریم میں آئی، وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور اخلاق تھے۔

 

تو غور کیجیے قرآن کریم کی کتنی آیات جہاد کے بارے میں ہیں؟ پس جہاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا ایک جزو تھا اور جہاد کو اخلاق سے جدا کرنا نبوی سیرت کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔

 

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کا طرزِ حیات کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سترہ چیزوں کا ذکر کیا کہ یہ میری زندگی کا طریقہ ہے۔ سولہویں نمبر پر فرمایا: والجھاد خلقی۔ میرا اخلاق کفار کے مقابلے میں جہاد کرنا ہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام نبی الملاحم اور صاحب السیف بھی ہے۔ تو کیا انہیں بد اخلاقی والے نام کہا جائے گا؟

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاق

مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔

 

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر دوڑائیں، مدنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جہاد میں گزرا، تو معلوم ہوا کہ "مَکَارِمَ الْأَخْلَاق” جہاد سے عبارت ہیں۔

 

لہذا دین کی اشاعت میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز اور طریقہ موجود ہے اس میں ایک اہم عمل جہاد بھی ہے اور جہاد کو اخلاق سے جدا کرنے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے لا علمی ہے۔

Author

Exit mobile version