آج بدھ کی صبح حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں شہید ہو گئے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ ہنیہ اپنے ایک محافظ کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے ایک حملے میں شہیو ہوئے۔
ابھی تک ان پر ہونے والے حملے کی نوعیت واضح نہیں ہے، لیکن ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے نتائج جلد نشر کیے جائیں گے۔ اسماعیل ہنیہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشیکان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران گئے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
اسماعیل ہنیہ مئی ۱۹۶۳ء میں غزہ کی پٹی کے الشاطی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور ۱۹۸۷ء میں عربی ادب میں فارغ التحصیل ہوئے۔ فراغت کے بعد انہوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی پہلی انتفاضہ میں حصہ لیا، جس کی وجہ سے اسرائیلی عدالت نے انہیں مختصر عرصے کے لیے قید کیا۔ ۱۹۸۸ء میں ایک بار پھر چھ ماہ کے لیے قید ہوئے۔
ایک سال بعد ۱۹۸۹ء میں پھر سے گرفتار کر لیے گئے اور تین سال جیل میں گزارے۔ ۱۹۹۲ء میں رہائی کے بعد، اسرائیل نے انہیں حماس کے بعض قائدین اور کارکنوں کے ساتھ لبنان ڈی پورٹ کر دیا۔ وہاں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور ہوئے اور ایک سال بعد پھر سے غزہ آ گئے اور اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ مقرر ہو گئے۔
اسماعیل ہنیہ کے حماس کے بانی، شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ کے ساتھ نزدیکی تعلقات تھے، اور ان تعلقات کی وجہ سے بہت جلد حماس کے داخلی حلقوں میں مشہور ہو گئے اور ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
۱۹۹۷ء میں جب شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ اسرائیلی قابضین کی قید رسے رہا ہوئے ، تو ہنیہ کو دفتر کا انچارج مقرر کر دیا گیا۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے دوسری مذاحمت میں بھی، جو کہ دوسرے انتفاضہ کے نام سے مشہور ہے اور ستمبر ۲۰۰۰ء سے فروری ۲۰۰۵ء تک جاری رہا، ہنیہ نے نمایاں کردار ادا کیا۔
اسماعیل ہنیہ مارچ ۲۰۰۶ء میں انتخابات کے ذریعے فلسطینی ریاست کے وزیر اعظم کی حیثیت سے منتخب ہوئے، لیکن الفتح تنظیم اور اسرائیل کی جانب سے سخت مشکلات کھڑی کی گئیں، اسرائیل اور مغربی دنیا نے فلسطین کے لیے امداد بند کر دی اور حماس کی سربراہی میں چلنے والی حکومت کو کام سے روک دیا۔ اسماعیل ہنیہ نے فروری ۲۰۰۷ء میں استعفیٰ دے دیا اور الفتح تنظیم کے ساتھ مل کر ایک قومی اتحادی حکومت تشکیل دی۔ الفتح تنظیم کے سربراہ محمود عباس نے چار ماہ بعد، ۱۴ جون کو قومی اتحادی حکومت تحلیل کر دی اور ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا۔ ہنیہ اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ گئے اور غزہ اور مغربی کنارے کا اقتدار محمود عباس کے ہاتھ آ گیا۔ ہنیہ نے حکومتی عہدہ چھوڑنے کے بعد اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور حماس کے سیاسی اور معاشی شعبوں میں سرگرم کردار ادا کیا۔
۲۰۱۶ء میں اسماعیل ہنیہ کو خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کر دیا گیا اور وہ قطر چلے گئے۔ دو سال بعد، ۲۰۱۸ء میں امریکہ نے انہیں اہم دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔
۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے، اسماعیل ہنیہ ایک بار پھر منظر عام پر آئے اور انہوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا۔ وہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ کی حیثیت سے اسرائیلی قابضین کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے مذاکرات اور دیگر متعلقہ امور کے ذمہ دار تھے۔ ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے، اسرائیل کے لیے وہ حماس کے سب سے اہم فرد بن گئے۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اسرائیل نے غزہ میں ان کے گھر پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں ان کے خاندان کے ۱۴ افراد شہید ہو گئے۔ ایک ماہ بعد، نومبر میں ان کے دو پوتے شہید ہوئے۔ رواں برس ۱۰ اپریل ۲۰۲۴ء کو ان کے تین بیٹے اور تین پوتے غزہ میں اسرائیلی وحشی بمباری میں شہیو ہوئے۔ ۲۵ جون کو الشاطی کیمپ پر اسرائیل کی بمباری سے آپ کے خاندان کے ۱۰ مزید افراد شہید ہوئے جن میں آپ کی ۸۰ سالہ بہن بھی شامل تھیں۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف جہاد کی سرکردہ اور سرگرم شخصیت، بالآخر ۲۵ محرم الحرام ۱۴۴۶ھ بمطابق ۳۱ جولائی ۲۰۲۴ء ایران کے شہر تہران میں ایک حملے میں اپنے محافظ سمیت شہید ہو گئے۔