افغانستان کسی بھی گروہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر دوسروں کے خلاف استعمال نہیں کرتا۔ داعشیوں کے خلاف جدوجہد افغانستان کی حکومت اور عوام اپنے عقائد کے مطابق کرتی ہے کیونکہ داعش ایک تکفیری گروہ ہے، زمین پر فتنہ و فساد برپا کرتا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان کے خلاف جدوجہد اور جنگ کریں۔ افغانستان میں داعش کا ظہور کے ساتھ ہی انہوں نے فتنہ و فساد پھیلانا شروع کر دیا۔ امارت اسلامیہ ان کے مقابل کھڑی رہی، اقتدار حاصل کرنے سے قبل اور بعد میں بھی اس جدوجہد کو کسی سے پوشیدہ نہیں رکھا۔ مزید برآں فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پالیسی مدینہ منورہ میں اختیار کی، امارت اسلامیہ اس مبارک پالیسی کے مطابق اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں استوار کرتی ہے۔ حالیہ عرصے میں ایک ادارے کی جانب سے افغانستان کی طرف سے خطرات اور یہاں نئے جنگجوؤں کی آمد پر بارہا بحث ہوتی رہی ہے۔ لیکن کیا ان باتوں میں کوئی حقیقت ہے؟ اور اگر حقیقت نہیں تو پھر ایسی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں؟
جواب واضح ہے۔ ان بیانات میں کوئی صداقت نہیں، کیونکہ گزشتہ تین سال میں اسی ادارے کے رکن ممالک سے داعش کے درجنوں جنگجو افغانستان آ چکے اور افغانستان میں درجنوں حملے کر چکے ہیں اور ان میں سے بہت سے یہاں کی سکیورٹی فورسز کی کاروائیوں میں گرفتار یا مارے جا چکے ہیں۔ ابھی تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا کہ افغانستان سے کوئی جنگجو گیا ہو اور مذکورہ ادارے کے کسی رکن ملک میں حملہ کیا ہو۔ ایران میں کرمان اور روس کے شہر ماسکو میں جو حملے ہوئے ان کے حملہ آور کس ملک کے شہری تھے؟ حملے کس جگہ سے ترتیب دیے گئے تھے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کے بیانات یا تو اس لیے دیے جاتے ہیں کیونکہ بعض ممالک کے بعض ادارے معلومات کے اعتبار سے خلا میں رہتے ہیں یا پھر یہ افغانستان کے بعض ہمسایہ ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور موجودگی کا جواز پیدا کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے پڑوس میں بعض ایسے انٹیلی جنس ادارے بھی موجود ہیں جو جھوٹی اطلاعات گھڑنے میں بہت مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں اور یہ ان کا کاروبار بن چکا ہے۔ خطے اور دیگر دنیا کے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے حالات کے بارے میں درست معلومات حاصل کریں اور ان کی پالیسیاں ان جھوٹی معلومات کا شکار نہ ہوں جو بعض متعصب حلقے افغانستان کے بارے میں گھڑتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر وہ غلطی کر رہے ہیں اور ممکن ہے یہ غلطی بھی قصدا ہو۔ حریف قوتیں ان کے پیچھے لگی ہوئی ہیں اور انہیں سخت سکیورٹی چیلنجز اور حوادث کا سامنا کرنا پڑا ہے۔