افغانستان میں خانہ جنگی ختم کرنے والا رہنما

احمد ارمغان

سابق سوویت یونین کے قبضے سے نجات کے بعد افغانستان میں عوامی سوچ اور توقعات یہ تھیں کہ اب فتح کا جشن منایا جائے گا، ملک میں امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا، ترقی، تعمیر نو، اور ملی یکجہتی کی طرف قدم بڑھائے جائیں گے اور ایک متفقہ اسلامی حکومت افغانستان کو دنیا کے ساتھ مقابلے کے میدان میں لے آئے گی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب خواب اور خیال ہی ثابت ہوا۔

جہادی تنظیموں نے، بیرونی انٹیلیجنس اداروں کی شہ اور مدد سے، اقتدار کے نشے میں ایسی خانہ جنگی کا آغاز کیا جس نے افغانستان کے باقی ماندہ اداروں کو روسیوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا۔ ساتھ ہی ایسی لسانی، علاقائی اور نسلی تعصبات کو جنم دیا جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کے خلاف حاصل شدہ جہادی میراث و ثمرہ اور قومی وقار کو محفوظ رکھنے کی کوشش بھی پانی میں بہہ گئی، اور جہادی رہنما اس حد تک سیاسی سودے بازیوں، معاہدوں اور قوم پرستی میں الجھ گئے کہ آج تک کابل کی بربادی کی تلافی نہ ہو سکی۔

اگرچہ اس تباہی اور خانہ جنگی کے خاتمے اور تنظیمی رہنماؤں کے اقتدار کی ہوس سے نجات کے لیے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر کوششیں کی گئیں، لیکن سب بے نتیجہ رہیں، کیونکہ بات چیت اور ہتھیار ایک دوسرے سے میل نہ کھا سکے۔ تنظیمی رہنما خود کو اپنی طاقت اور افراد کی بنیاد پر عالمی ہیرو سمجھتے تھے، جبکہ ان کا اصل مقصد اقتدار، دولت اور حکمرانی تھا۔

شاید اسی دور میں اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور بعض اللہ والے لوگوں کی دعاؤں کی قبولیت کا راز تھا کہ ایک فقیر کی صورت میں ایک ایسا نجات دہندہ افغان قوم کو عطا کیا گیا، جس نے اپنے مضبوط عزم، بہادری اور مخلص ساتھیوں کے سہارے اسلحے کی طاقت سے خانہ جنگی کا خاتمہ کیا۔

یہ درویش مزاج رہنما اور قائد مرحوم ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ تھے، وہ شخصیت جنہیں روس کے خلاف جہاد میں شرکت اور جدوجہد کا فخر حاصل تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جنہوں نے جہاد کے بعد خانہ جنگی میں حصہ لیا ہو، بلکہ حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد انہوں نے طالبان کی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی، اور قلیل مدت میں قندہار سے لے کر کابل تک خانہ جنگی اور جنگجو سرداروں کا خاتمہ کر دیا۔ انہوں نے بے انتہا قربانیاں دیں، لیکن چونکہ قوم اسی لمحے کی پیاسی تھی، اس لیے اس نجات دہندہ کا جان و مال سے ساتھ دیا، اور اس کے ساتھیوں کو نجات دہندہ فرشتوں کے لقب سے یاد کیا گیا، جو کہ ان کا حق بھی تھا۔

کئی بین الاقوامی مؤرخ اور محققین اس پر حیران ہیں کہ ایک ایسا شخص جو مدرسے اور مسجد میں تدریس میں مشغول تھا، کس طرح خانہ جنگی کے خاتمے کا نظریہ پیش کرتا ہے، اور پھر انتہائی محدود وسائل کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ جب بیرونی انٹیلیجنس ایجنسیاں اور خانہ جنگی کے ٹھیکیداروں نے دیکھا کہ ان کا اقتدار اور طاقت ختم ہو رہی ہے، تو انہوں نے اس نجات دہندہ تحریک کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشوں کا جال بچھا دیا، مگر ملا صاحب ایسا شاہین نہ تھا جو ان جالوں میں پھنس جائے۔

صرف اللہ پر بھروسہ اور اپنے مخلص اور حقیقی مجاہد ساتھیوں کے ساتھ، انہوں نے کابل کے قابض لٹیروں، قومی دولت کو لوٹنے والوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کو نکال باہر کیا۔ اور انہیں یاد دلایا کہ آزادی حاصل کرنا آسان ہے، لیکن اسے برقرار رکھنا مشکل۔ اور یہ کہ تم نے جہاد اور شہداء سے خیانت کی ہے، اس لیے آج تم دنیا میں اس کی سزا دیکھو، اور آخرت میں بھی سخت حساب تمہارا منتظر ہے۔

مرحوم ملا صاحب کی جدوجہد اور کامیابی کے کئی راز ہیں، لیکن درج ذیل چند نمایاں ہیں:

۱۔ ایمانی عزم اور نظریہ:

ہر کامیاب جدوجہد ایک مضبوط نظریے اور پختہ عزم کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ملا صاحب اور امارتِ اسلامی کا بنیادی نظریہ حقیقی اسلام کی نمائندگی، فساد اور شر کی جڑوں کو ختم کرنا، اور افغان قوم کو امن و سلامتی فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے اپنی اسلامی اور ایمانی سوچ پر بھروسہ کیا، ہم خیال لوگوں کو ساتھ لیا، اور چونکہ پختہ عزم کامیابی کی کنجی ہے، وہ کامیاب ہوئے۔

ان کے نظریے میں شک و تردد کی گنجائش نہ تھی، اسی لیے وہ عوام کے دلوں میں گھر کر گئے اور آخر تک ثابت قدم رہے۔ ان کے نظریے کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ علماء کرام کو صرف مدرسے اور مسجد تک محدود نہیں رہنا چاہیے، جب تک وہ مسلح جدوجہد نہ کریں اور حکومت کے قیام و نظام کے فن سے واقف نہ ہوں، تب تک وقت کے تقاضوں اور اسلام دشمن سازشوں کا جواب محض وعظ و نصیحت سے ممکن نہیں۔ لہٰذا انہوں نے اس سختی کو قبول کیا اور حاکمیت کو اسلامی رنگ دیا۔

۲۔ عوامی حمایت اور مقبولیت:

ملا صاحب تحریک کے قیام اور قیادت سے پہلے بھی اپنے لوگوں کے درمیان ایک مخلص، بااثر اور عالم کے طور پر معروف تھے۔ انہوں نے اپنے جہادی پس منظر اور کردار کو دولت، اقتدار یا وعدوں کے بدلے میں نہیں بیچا، اسی لیے وہ ہر جگہ عوام کے لیے قابلِ اعتماد شخصیت تھے۔ تحریک کا آغاز انہوں نے ایک ضرورت کے تحت کیا، اور ساتھیوں و عوام سے مشورے کے بعد اسے منظم کیا۔ ان کی سچائی ہی تھی کہ لوگ ان کے ساتھ جان و مال کی قربانی پر آمادہ ہوئے، اور آخر کار وہی کچھ ہوا جو عوام چاہتے تھے یعنی خانہ جنگی کا خاتمہ۔

۳۔ قربانی اور ایثار کا جذبہ:

سابقہ امارت کے اختتام تک مسلح جدوجہد جاری رہی۔ مختلف محاذوں سے شہداء اور زخمی آتے رہے، جبکہ دوسری طرف شر و فساد کی قوتیں اپنے آقاؤں کی مدد اور روس سے بچی ہوئی دولت و قومی خزانے کو لوٹنے کے وسائل کے ساتھ لڑتی رہیں۔ مگر آخرکار امارتِ اسلامی نے پنجشیر کے کچھ حصوں کے علاوہ پورے افغانستان میں امن اور اسلام کا پرچم بلند کر دیا۔ یہ اسلامی جدوجہد اور وطن کے محافظوں کے لیے ایک سبق ہے کہ کوئی بھی تحریک قربانی اور زخموں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔

۴۔ ذاتی مفادات اور ترجیحات سے بالاتر سوچ:

مرحوم ملا صاحب کی جدوجہد میں پہلی بار ایک ملک اور ایک ملت کی تشکیل کا نظریہ سامنے آیا، اور انہوں نے احمد شاہ بابا رح کا وہ خواب شرمندہ تعبیر کیا کہ افغانستان تمام افغانوں کا گھر ہے، اور اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت سب پر فرض ہے۔ ملا صاحب ذاتی مفادات کو چھوڑ کر قومی مفادات اور عوامی بھلائی کو اہمیت دیتے تھے، اور یہ جذبہ آج بھی امارتِ اسلامی کے لیے ایک قومی درس کی حیثیت رکھتا ہے۔

۵۔ استقلال اور غیرملکی وابستگی کی مخالفت:

پہلے یہ رواج تھا کہ اگر کوئی فکری یا عسکری تحریک بیرونی حمایت کے بغیر ہو، تو اس کی کامیابی ممکن نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لیکن مرحوم ملا صاحب نے افغان قوم کو یہ ثابت کر دیا کہ اگر کوئی تحریک عوامی بنیادوں پر قائم ہو، اللہ پر بھروسہ اور اپنے وسائل پر انحصار کرے، تو کامیابی اگرچہ دیر سے ہو، لیکن دائمی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امارتِ اسلامی کا نظریہ تین دہائیوں سے زندہ ہے، اور ان کی وفات کے بعد ایک بار پھر زندہ ہوا، حتیٰ کہ آج ان کے نظریے کا پرچم صدارتی محل پر لہرا رہا ہے۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر امارتِ اسلامی کے بانی کی قربانیاں اور آزادی کے یہ اسباق ہمارے سامنے نہ ہوتے، اور ان کے مخلص ساتھیوں نے قربانی اور میدان کارزار میں قدم نہ رکھا ہوتا، تو آج بھی افغانستان خانہ جنگی اور غیر ملکی انٹیلیجنس کے کھیل کا شکار ہوتا۔ لیکن الحمدللہ، آج افغانستان دنیا کا ایک پرامن ملک ہے، اپنے قومی وسائل پر چل رہا ہے اور کسی ملک کا مقروض نہیں۔ یہ سب کچھ اسی رہبر، ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قیادت اور برکت کا نتیجہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ملا صاحبؒ کو جنت الفردوس اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے، اور امارتِ اسلامی کے موجودہ رہنماؤں کو ان کے نظریات پر چلنے کا حوصلہ اور توفیق عطا فرمائے۔

Author

Exit mobile version