شیخ عبد السلام رحمہ اللہ اور موالات:
تفسیر "احسن الکلام” میں شیخ عبد السلام رحمہ اللہ سورۃ الممتحنہ کے تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ولایت کی تین درجے ہیں:
پہلا درجہ: کافروں کے ساتھ کفر اور شرک کے کاموں میں عقیدے کی بنیاد پر دوستی کرنا، یہ کفر ہے۔
دوسرا درجہ:کافروں کے ساتھ کفر اور شرک کے کاموں میں زبانی یا جسمانی مدد کرنا، اگرچہ کفر اور شرک میں شریک نہ ہو، یہ کبیرہ گناہ ہے۔
تیسرا درجہ: کافروں کی تعظیم و تکریم کرنا، یا انہیں لیڈر بنانا، یا ان کے احترام کے لیے کھڑا ہونا وغیرہ، یہ بھی گناہ ہے، اور یہ تمام درجے اس ممانعت میں شامل ہیں۔
فقیہ العصر مفتی محمد فرید رحمہ اللہ:
فقیہ العصر مفتی محمد فرید رحمہ اللہ اپنی کتاب فتاویٰ فریدیہ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
افغانستان میں اسلام کے دعویدار تین قسم کے لوگ ہیں:
۱۔ وہ لوگ جو کمیونزم اور اشتراکیت کو ترقی اور پیشرفت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسلام کو، نعوذ باللہ، پسماندگی اور تنزلی کا سبب سمجھتے ہیں، یہ لوگ بلا شبہ کافر ہیں۔
۲۔ وہ لوگ جو کمیونزم اور اشتراکیت کو باطل سمجھتے ہیں، لیکن خوف یا جبر کی وجہ سے ظاہری طور پر کمیونسٹوں سے اتفاق کرتے ہیں، یہ گروہ مسلمان ہے لیکن ان پر ہجرت کرنا لازم ہے۔
۳۔ وہ لوگ جو صرف دنیوی مفادات اور فوائد کے لیے اس خبیث جماعت یا گروہ میں شامل ہیں، نہ مرتد ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے عقیدے کی طرح عقیدہ رکھتے ہیں، یہ لوگ بلا شبہ فاسق اور فاجر ہیں۔
حضرت اقدس مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ:
حضرت اقدس مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ موالات کے بارے میں فرماتے ہیں: کافروں کے ساتھ موالات یعنی محبت کرنے کی تین اقسام ہیں:
۱۔ یہ کہ دین کے تعلق سے ان کے ساتھ محبت کی جائے، یہ سراسر کفر ہے۔
۲۔ یہ کہ دل سے ان کے دین اور مذہب کو برا سمجھا جائے، لیکن دنیوی معاملات میں ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے، یہ بالاجماع جائز ہے، بلکہ ایک درجے میں مستحسن بھی ہے۔
۳۔ تیسری صورت ان دونوں صورتوں کے درمیان ہے، یعنی دل سے کافروں کے دین کو برا سمجھا جائے، لیکن کسی رشتہ داری، دوستی، یا دنیوی مقصد کی وجہ سے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں، ان کی مدد کی جائے، یا مسلمانوں کی جاسوسی کی جائے، یہ صورت کفر تو نہیں لیکن سخت گناہ ہے۔
حاطب رضی اللہ عنہ کے واقعے میں یہ صورت پیش آئی کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی وجہ سے کافروں کی مدد کی اور ان کے ساتھ ایک طرح کا احسان اور نیکی کی۔ سورۃ الممتحنہ کا نزول اسی قسم کے موالات کی ممانعت کے لیے ہوا۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی عبارت درج ذیل ہے:
> "کافروں سے موالات یعنی محبت کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ ان کو دینی حیثیت سے محبوب رکھا جائے، یہ قطعاً کفر ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دل سے ان کے مذہب اور دین کو برا سمجھے، مگر معاملات دنیوی میں ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آئے، یہ بالاجماع جائز، بلکہ ایک درجہ میں مستحسن بھی ہے۔ تیسری صورت ان دونوں صورتوں کے بیچ بیچ ہے، وہ یہ کہ دل سے تو ان کے مذہب کو برا سمجھے مگر کسی قرابت یا دوستی یا دنیوی غرض کی وجہ سے ان سے دوستانہ تعلقات رکھے، اور ان کی اعانت اور امداد کرے، یا کسی وقت مسلمانوں کی جاسوسی کرے، یہ صورت کفر تو نہیں مگر سخت گناہ ہے۔ حاطب ابن ابی بلتعہ کے قصے میں یہی صورت پیش آئی کہ انہوں نے اپنی قرابت کی وجہ سے کفار کی مدد کی اور ان کے ساتھ ایک قسم کا سلوک اور احسان کیا۔ سورہ ممتحنہ کا نزول اسی قسم کی موالات کی ممانعت کے لیے ہوا ہے۔” (معارف القرآن جلد: 1، صفحہ: 595)
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ:
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ سورۃ آل عمران کے اس آیت ﴿ *لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِىْ شَىْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً ۚ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۚ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ٢٨* ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ تعلقات رکھنے کے مختلف درجے ہیں:
موالات: دل سے محبت اور دوستی کرنا، جسے موالات کہتے ہیں، یہ کسی مسلمان کے لیے کافروں کے ساتھ رکھنا جائز نہیں۔
مواسات: ہمدردی، خیرخواہی، اور نفع پہنچانا، یہ حربی کافروں کے علاوہ دیگر کافروں کے ساتھ جائز ہے۔
مدارات:ظاہری خوش اخلاقی اور دوستانہ رویہ، یہ تمام کافروں کے ساتھ جائز ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد دینی نفع، مہمان نوازی، یا ان کے شر و ضرر سے بچاؤ ہو۔ آیت ﴿اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰةً﴾ میں یہی مدارات کی درجہ مراد ہے۔
معاملات: کافروں کے ساتھ تجارت، اجرت، ملازمت، صنعت، یا ہنر کے معاملات جائز ہیں، سوائے ان صورتوں کے جن میں عام مسلمانوں کو نقصان ہو۔