افغانستان پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی (Sanctions Monitoring Committee) مسلسل افغانستان میں القاعدہ اور بعد دیگر گروہوں کے مراکز کی موجودگی اور سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق رپورٹس نشر کر رہی ہے۔
اس گروپ کے معلومات اکٹھی کرنے کا طریقۂ کار(mechanism) اس طرح کا ہے کہ اس کے ارکان مختلف ممالک کا سفر کرتے ہیں، وہ جو معلومات فراہم کرتے ہیں یہ انہیں اپنی رپورٹ کے اس فریم ورک میں رکھتے ہیں جو پابندیوں کے ابتدائی سالوں میں ترتیب دیا گیا تھا۔
بجائے اس کے کہ یہ گروپ حقائق نشر کرے، بعض رکن ممالک اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور یہ ادارہ دیگر ممالک کے خلاف ان ممالک کے سیاسی و نفسیاتی میدان میں مطلوب اہداف کے حصول کی خاطر مصنوعی اور جھوٹ سے بھرپور معلومات فراہم کر رہا ہے۔
اس گروپ کو افغانستان کے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور تاجکستان افغانستان میں القاعدہ اور دیگر گروہوں کی موجودگی اور مراکز کے حوالے سے مسلسل غلط معلومات فراہم کر رہے ہیں اور یہ گروپ انہیں نشر کر رہا ہے۔
ممکن ہے اس گروپ کو بعض دیگر بااثر حلقوں کی جانب سے اس بارے میں ہری جھنڈی دکھائی گئی ہو، تاہم یہ "بااثر حلقے” ان رپورٹس پر بالکل اعتماد نہیں کرتے۔
سوال یہ ہے کہ اس پراپیگنڈہ کھیل کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟
المرصاد کو اپنے ذرائع سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون کے معاہدے میں ایک اہم نکتہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں، گلگت، بلتستان اور چترال میں داعشی منصوبے کے نئے مراکز قائم کرنا بھی ہے، جن کے ذریعے ان کی کوشش ہے کہ افغانستان کے شمال مشرق میں دراندازی کی جائے۔
انہوں نے چین، وسطی ایشیائی ممالک اور روس کے لیے کچھ خدشات پیدا کیے ہیں اور دباؤ ڈالنے کے اس نئے کھیل کو خطے کے سیاسی کھیل کے میدان میں اپنے مفادات کے لیے اور عالمی کھیل کے میدان میں مغرب کے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اپنے مفادات میں سے ایک چین اور افغانستان کے درمیان واخان اقتصادی راہداری اور امارت اسلامیہ اور چین کے بڑھتے ہوئے رسمی تعلقات کے آگے بند باندھنا ہے۔
سابق جمہوریہ کے مفرور حکام سے مسلسل رابطے، گلگت بلتستان میں نئے ائیر بیس کی تعمیر، انسداد دہشت گردی ٰآپریشن کے نام سے مشقیں ، پاکستانی انٹیلی جنس اور ملٹری حکام کے مغرب کے دورے، تاجکستان کے ساتھ مغرب کے بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات، پاکستان اور تاجکستان کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون معاہدہ اور افغانستان میں حملوں کی وارننگ وہ کوششیں ہیں جو اس مقصد کے حصول کے لیے کی جا رہی ہیں۔
المرصاد کو اپنے معتبر سکیورٹی ذرائع سے یہ رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ اس وقت پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بہت سے تاجکستانی، آذربائیجانی، ترک، وسطی ایشیائی اور بعض دیگر ممالک کے شہری زیر تربیت ہیں اور خطے کے بہت سے ممالک میں حملوں کو ترتیب دینے کے لیے ایک نیا وجود (entity) سامنے آیا ہے اور اس نے فعالیت شروع کی ہے، اور خطے کے ممالک کو اپنی سکیورٹی کے درست راستے سے ہٹانے اور دھوکہ دینے کے لیے پابندیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی کو ایک آلے (tool) کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں القاعدہ کے مراکز اور سرگرمیوں کے حوالے سے مصنوعی اور جھوٹی رپورٹس نشر کی جا رہی ہیں اور اس طرح سے ان کی کوشش ہے کہ علاقائی اور عالمی کھیل میں بعض وہ اہداف حاصل کر لیں جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
چین، روس اور وسطی ایشیا کے ممالک کو مشترکہ طور پر اس نئے خطرناک کھیل سے نمٹنا چاہیے۔
بلوچستان کو داعش خراسان کے ہیڈ کوارٹر، گلگت بلتستان کو داعشی لشکر کے گڑھ اور تاجکستان کو داعش کی افرادی قوت کی بھرتی کے نئے مرکز کے طور پر دیکھیں اور اس کی اس حیثیت کو تسلیم کریں۔ لیکن اگر خطے کے ممالک متوجہ نہ ہوئے تو ممکن ہے کہ داعشی منصوبے کو استعمال کرنے والوں کی طرف سے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔