بعض مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں کہ داعش کے خلاف جنگ کے اعلانات کرتے ہیں اور داعش کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بالواسطہ اور بلا واسطہ داعش کی سہولت کاری کرتے ہیں اور ان کے لیے میڈیا پر پروپیگنڈے کرتے ہیں۔
گذشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل انتونیو گوترش نے اپنی انیسویں رپورٹ میں ایسی بات کہی گویا داعش اب بھی دنیا کے لیے خطرہ ہے اور یہ گروہ کسی جگہ بھی حملہ کرسکتا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں داعشی خوارج کا مرکز افغانستان ظاہر کیا گیا ہے جہاں سے خطے اور یورپی ممالک میں حملوں کے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس گروہ کے گرفتار شدہ افراد جو ایران، روس اور افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں میں ملوث تھے، یہ سب کے سب تاجکستان اور پاکستان کے رہائشی تھے جو ان کاروائیوں کے لیے پاکستان، ترکیہ اور تاجکستان سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گئے تھے۔
امریکی وزارت دفاع نے بھی دو روز قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ داعش خراسان اب بھی دنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔
مغربی حکام اوراقوام متحدہ کا داعش کو ایک قوت کے طور پر ماننے کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ افغانستان میں یہ گروہ اور اس کا تمام نیٹ ورک ختم ہوچکا ہے، یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ افغانستان میں داعش کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، اس کے علاوہ عوام میں ان کا کوئی ہمدرد یا کسی طرح کی کوئی سرگرمی وجود نہیں رکھتی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ بشمول بعض مغربی ممالک امریکہ کی دورخی سیاست پر عمل پیرا ہیں اور داعش کا نام استعمال کرکے مذکورہ ممالک کے ناپاک عزائم کو پوراکرنے کے لیے بطور آلہ کام کررہے ہیں، یہ لوگ ہمسایہ ممالک کے حساس اداروں کے تعاون سے اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔