الشراۃ: خوارج کا ایک اور گروہ

ضیاء بری

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ، جنہیں اموی خلافت کے عادل اور نیک خلفاء میں شمار کیا جاتا ہے، کی تمام کوششوں اور توجہ کا مرکز یہ تھا کہ انصاف اور اسلام کے حقیقی اصول نافذ ہوں اور لوگوں کو ہر طرح کی بدحالیوں سے بچایا جائے۔ وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے شدید خواہاں تھے، یہاں تک کہ خوارج کے خلاف بھی انہوں نے نرم پالیسی اپنا رکھی تھی۔

الشراۃ خوارج کا وہ گروہ تھا جس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے دوران مختلف علاقوں میں بغاوت کھڑی کی، یہ لوگ سجستان (موجودہ سیستان)، ہرات اور خراسان کے بعض علاقوں میں آباد تھے اور امت محمدیہ ﷺ کو کافر کہتے تھے۔

یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بیزار اور متنفر تھے، لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شدید محبین اور عقیدت مند تھے۔

الشراۃ خوارج محارم کو (وہ لوگ جن سے رشتے کی وجہ سے ان سے نکاح کرنا حرام ہے اور فقہاء کے نزدیک حجاب کے احکام ان پر لاگو نہیں ہوتے) حلال سمجھتے تھے، وہ قرآن کریم کی آیات سے استدلال کرتے تھے، سنتوں کے پابند نہیں تھے، اس سب کے ساتھ بہت بد زبان بھی تھے۔

ایک دن ان کے سردار غیلان کو عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیا گیا اور اسلامی عقائد اور شریعت کے بارے میں ان کے ساتھ مناظرہ ہوا۔

جب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے تمام مسائل میں اسے باطل ثابت کر دیا تو اس نے انتہائی مکاری کے ساتھ کہا کہ اے امیر المؤمنین! میں یہاں گمراہ آیا تھا، لیکن آپ نے مجھے درست راہ دکھلا دی، میں اندھا تھا آپ نے مجھے روشنی عطا کر دی، میں جاہل تھا آپ نے مجھے عالم بنا دیا، اللہ کی قسم میں آئندہ کبھی تقدیر کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو غیلان کی خباثت اور رزالت کا اندازہ ہو گیا اور انہوں نے اسے سخت الفاظ میں متنبہ کیا کہ اگر مجھے اطلاع ملی کہ تم نے تقدیر کے معاملے میں اپنا منہ کھولا ہے تو اللہ کی قسم اسی لمحے تمہیں سزا دوں گا۔

اس کے بعد غیلان عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی وفات تک خاموش رہا، لیکن جب اس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سنی تو دوبارہ تقدیر کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔

Author

Exit mobile version