القدس؛ اُمت کا زخمی دل | گیارہویں قسط

ابو ہاجر الکردی

مسلمان ہی کامیاب ہیں:

اگر مسلمان عزت، سربلندی، کامیابی، اور بیت المقدس کی پاک سرزمین کو ظالم اور قابض صہیونیوں کے چنگل سے نجات دلانا چاہتے ہیں، تو اس کا واحد حل اللہ جل جلالہ کی طرف رجوع کرنا، نبوی شریعت پر عمل کرنا، اتحاد، یکجہتی، اور اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لیے مخلصانہ جہاد کرنا ہے۔

مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ بیت المقدس اور فلسطین کی بازیابی کے لیے صرف وہی طریقے مؤثر ہو سکتے ہیں جو اللہ جل جلالہ کی طرف رجوع، آخرت پر یقین، شریعت کے احکام کی پیروی، دوسروں کی اندھی تقلید سے اجتناب، اور معاشرت و سیاست میں مکمل طور پر اللہ پر بھروسہ رکھنے کے ساتھ ساتھ خالص جہاد پر مشتمل ہوں۔

وہ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر دو جگہوں کو اپنے بندوں کی عبادت کے لیے منتخب کیا ہے: ایک بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس۔ لیکن ان دونوں کے لیے الگ الگ قوانین مقرر کیے ہیں۔ بیت اللہ کی حفاظت اور اس پر کفار کے تسلط کو روکنا خود اللہ جل جلالہ نے اپنے ذمہ لیا ہے، جیسا کہ سورۂ فیل میں اس کا ذکر موجود ہے۔ تاہم، بیت المقدس کے معاملے میں ایسا کوئی قانون نہیں۔

سورۂ بنی اسرائیل کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ جب بھی مسلمان گمراہی اور نافرمانی میں مبتلا ہوں گے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیت المقدس ان سے چھین لیا جائے گا اور کفار اس پر قابض ہو جائیں گے۔ لہٰذا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ پر توکل کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کریں اور ان کی نبوی پیشین گوئی کا عملی نمونہ بنیں، جس میں فرمایا گیا ہے کہ "درخت اور پتھر بھی کفار کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں گواہی دیں گے۔”

امام مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِيَّ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ». (صحیح مسلم)

ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کریں، مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے، پس وہ پتھر اور درخت کہے گا: اے مسلم! اے اللہ کے بندے! میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، آؤ اور اسے قتل کرو، سوائے غرقد کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔)

دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأَوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ: بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ.»(مسند احمد)

ترجمہ: ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہے گا، وہ اپنے دشمنوں پر غالب اور ان پر فتح مند ہوگا، جو لوگ ان کی مخالفت کریں گے، وہ ان کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے، سوائے اس تکلیف کے جو انہیں پہنچے گی۔ یہ حالت اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کا حکم نہیں آ جاتا اور وہ اسی حال میں رہیں گے۔‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ بیت المقدس اور اس کے آس پاس ہوں گے۔‘‘

اس دن کی امید پر جب رب العالمین بیت المقدس، فلسطین کی مقدس سرزمین، اور تمام اسلامی ممالک کو کفار اور ظالموں کی غلامی سے آزاد کرے گا، انہیں اسلام کی رحمت بھری آغوش میں واپس لوٹائے گا اور مسلمانوں کو اتحاد، یکجہتی، کامیابی، عزت، سربلندی، اور خوشحالی نصیب فرمائے گا۔ آمین۔

Author

Exit mobile version