۲۰۲۱ء کے بعد جب وطن عزیز افغانستان سے تمام قابض افواج کا انخلاء ہو گیا، پاکستان نے امارت اسلامیہ افغانستان کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور پاکستان میں بھی اور دنیا کے سامنے بھی ایسے ظاہر کیا کہ جیسے امارت اسلامیہ کے قائدین ہمارے اپنے لوگ ہیں، ہم انہیں جو کہیں گے وہ اسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیں گے۔یہاں تک کہ افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی کانفرنسوں میں بات کی اور افغانستان کے داخلی مسائل کا اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے مطابق خیال نہیں کیا۔
پاکستان نے ان اقدامات پر اکتفا نہیں کیا لیکن جب افغانستان میں نگران حکومت کا اعلان ہوا اور ملک کے قومی مسائل اٹھائے گئے تو پاکستان کو اندازہ ہوا کہ افغانستان اب ایک قومی، مقتدر ، اسلامی اور مرکزی حکومت بنانے کی طرف تیزی سے گامزن ہے، اس لیے ایسی پالیسی اپنائی جائے جس سے امارت اسلامیہ کے قائدین کو قابو کیا جا سکے۔
مختصر عرصے میں امارت اسلامیہ افغانستان نے تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں کا اعلان کیا، اس پالیسی میں داخلی امور میں عدم مداخلت، معشیت پر مبنی متوازن سیاست اور اچھی ہمسائیگی نمایاں موضوعات تھے۔
مذکورہ بالا پالیسی کے مطابق، افغانستان کی حکومت نے نیک نیتی کے ساتھ پاکستان میں سیاسی استحکام لانے کے لیے پاکستان کو تجویز پیش کی کہ پاکستان اور پاکستان کےمخلاف مسلح گروپوں کے درمیان، جن میں سب سے بڑا گروپ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی ہے، افغانستان کی ثالثی میں کابل میں مذاکرات کیے جائیں، تاکہ پاکستان جو افغانستان کاپڑوسی ہے اور افغانستان کے ساتھ بہت سی مماثلتیں رکھتا ہے، استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
لیکن مغرب کے اشارے پر پاکستانی فوجی اور انٹیلی جنس اداروں نے پاکستان کی سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا اور وہ تمام کوششیں جو عمران خان کی حکومت کی جانب سے مخالف مسلح گروپوں پر قابو پانے کے لیے کی جا رہی تھیں ان سب پر پانی پھیر دیا۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےفوجی اور انٹیلی جنس ادارے ایک منظم منصوبے کے تحت تمام قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر امارت اسلامیہ کے خلاف پراپیگنڈہ میں شدت لے آئے کہ امارت اسلامیہ نے افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ دوحہ معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے تحت امارت اسلامیہ متحارب گروپوں کو اپنی سرزمین پر جگہ نہیں دے سکتی۔
امارت اسلامیہ ہمسائیگی کے اصولوں پر کاربند رہنے کی خاطر پاکستان کے اس شیطانی کھیل کو کڑوے گھونٹ کے طور پر پینے کو بھی تیار ہو گئی اور اس طرح طویل مدتی اعتبار سے ایک اسٹریٹیجک غلطی کر بیٹھی۔ لیکن انہوں نے یہ اعلان کیا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان سمیت کسی کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین ایسے تخریبی گروپوں کے حوالے کی گئی ہے جو پڑوسیوں کو نقصان پہنچانے کا کام کر رہے ہوں۔
پاکستان نے جب امارت اسلامیہ افغانستان کا اسٹریٹیجک صبر دیکھا تو اپنے پراپیگنڈے میں مزید شدت لے آیا اور انتہائی منظم طریقے سے میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر تجزیات، مضامین، انٹرویوز، ویڈیوز اور فیچرز کے ذریعے امارت اسلامیہ کے خلاف پراپیگنڈہ چلائے رکھا۔
سابق فوجی اور انٹیلی جنس افسران نے عالمی سٹیج پر الزامات کا سلسہ شروع کیا اور عالمی برادری کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ افغانستان کی صورتحال انتہائی نازک اور چونکا دینے والی ہے۔
مذکورہ بالا پالیسیوں سے لگتا ہے کہ پاکستان قصدا ایسا نہیں چاہتا کہ اس کے پڑوس میں ایک پر امن، مستحکم اور ترقی پزیر افغانستان ہو۔
ایسا افغانستان جس کی ایک بااختیار حکومت اور فوج ہو، ایسی فوج جو افغانستان کی تاریخی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی ہو، اور اگر ملکی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اس کا فوری جواب دے سکتی ہو۔
اسی طرح اگر ہم تاریخی لحاظ سے پاکستانی پالیسیوں کا مختصر جائزہ لیں تو افغناستان کے حوالے سے پاکستانی پالیسی کا خلاصہ درج ذیل عوامل سے پیش کیا جا سکتا ہے:
- افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ:
پاکستان ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے جب بھی افغانستان میں ایک بااختیار ریاست کے قیام کی کوشش کی گئی، پاکستان کو خطرہ لاحق ہوا اور اس نے کوشش کی کہ افغانستان میں ایک متزلزل اور کمزور کٹھ پتلی حکومت اقتدار میں آئے جس کے پاس اتنی طاقت نہ ہو کہ پاکستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھا سکے۔ - پاکستان افغانستان کو اپنی "تزویراتی گہرائی” (Strategic Depth) تصور کرتا ہے:
گزشتہ چار عشروں میں اگر افغانستان میں پاکستان کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے لیے ایک ایسا مرکز بن جائے جہاں سے وہ بھارت کا مقابلہ کر سکے اور انڈیا کو افغانستان میں اپنی طاقت دکھا سکے۔ - افغانستان کو پاکستان کے لیے ایک صارف ملک ہونا چاہیے:
افغانستان کے اساسی منصوبوں کی تباہی اور تعمیرِ نو کی مخالفت پاکستان کا بنیادی معاشی ہدف ہے۔ پاکستان نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے افغانستان کو اپنی ان چیزوں کی کھپت کا مرکز بنا دیا تھا جن کے استعمال کی اجازت خود پاکستان میں نہیں دی جاتی اور اس طرح سے وہ چاہتا تھا کہ افغانستان ہر میدان میں بالخصوص تعلیمی اور طبی شعبوں میں پاکستان کا محتاج ہو اور اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو سکے۔ لیکن امارت اسلامیہ کے دوبارہ قیام سے اس کی یہ امیدیں دم توڑ گئیں کیونکہ امارت اسلامیہ افغانستان نے اساسی منصوبوں کو ترجیح دی تاکہ افغانیوں کو اس دائمی محتاجی سے نجات دلا سکے۔ - افغانستان کے نام پر عالمی برادری کے ساتھ کھیل:
پاکستان نے پچھلے چالیس سال میں ٹھوس تجربہ حاصل کر لیا ہے کہ ہر طرح کے مشکل حالات میں افغانستان کے نام پر عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے مفادات کے دائرے میں کھیلے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان امارت اسلامیہ افغانستان کو اپنے سے کم تر کے طور پر دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مشرق و مغرب کی پالیسیوں کے افغانستان کے خلاف بدل سکتا ہے۔ - پاکستان خود کا بحرانوں کا مقابلہ کرنے والے کے طور پر دیکھتا ہے: سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں دو متضاد کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان خود کو متضاد سیاست کھیلنے کے قابل اس لیے سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں امریکہ کے ساتھ بھی اسٹریٹیجک شراکت داری برقرار رکھتا ہے اور اس کے بالمقابل چین کے ساتھ بھی اسٹریٹیجک تعلقات قائم رکھتا ہے۔
ایسا کردار ادا کرنے کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے لیکن عالمی سیاست میں مفادات اوّلین ترجیح ہوا کرتے ہیں، پاکستان مشرق اور مغرب دونوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ اس کام کو کرنے کے لیے یا تو وہ خود کو قربان کرے گا یا اپنی جگہ دوسروں کو قربان کرے گا۔ اور پاکستان کے لیے سب سے سستی قربانی افغانستان رہی ہے اور پاکستان نے گزشتہ چالیس سال میں مغربی ممالک اور اقوام متحدہ سے کروڑوں ڈالر افغان مہاجرین کے نام پر وصول کیے اور جب یہ ملنے بند ہوئے تو انہیں مہاجرین کو انتہائی توہین آمیز طریقے سے نکال دیا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
امارت اسلامیہ کے آنے کے بعد سے عالمی نظام میں یک قطبی کردار روبہ زوال اور خاتمے کے قریب ہے، اسی لیے دنیا اب نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کی قیادت میں آ رہی ہے۔
ان حالات میں امارت اسلامیہ کے لیے بہترین موقع ہے کہ مشرق اور مغرب کے تمام ممالک کے ساتھ براہ راست افغانستان کے قومی مفادات کی روشنی میں تعلقات استوار کرے تاکہ ان تخریب کار ممالک کی پالیسیوں سے افغانستان کے حالات کو بچایا جا سکے اور افغانستان کو یہ بہترین موقع میسر ہے کہ اپنے اساسی منصوبوں کو مکمل کرے اور دوسروں کا محتاج بننے کی بجائے عالمی برادری کے ساتھ ایک تعاون اور مسابقت کرنے والے ملک کے طور پر تعامل کرے۔