مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ مدد اور تعاون، یا اصطلاحاً مظاہرہ علی المسلمین کے بارے میں امام طحاوی رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے ان افراد کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن کفار کے ساتھ مدد اور تعاون کرتے ہیں، یعنی وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی جاسوسی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ مسلمان ہیں، جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری کی بارہویں جلد کے ۳۱۰ صفحے پر حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں فرمایا ہے:
وَفِيهِ الرَّدُّ عَلَى مَنْ كَفَّرَ الْمُسْلِمَ بِارْتِكَابِ الذَّنْبِ وَعَلَى مَنْ جَزَمَ بِتَخْلِيدِهِ فِي النَّارِ، وَعَلَى مَنْ قَطَعَ بِأَنَّهُ لَا بُدَّ وَأَنْ يُعَذَّبَ وَفِيهِ أَنَّ مَنْ وَقَعَ مِنْهُ الْخَطَأُ لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَجْحَدَهُ، بَلْ يَعْتَرِفُ وَيَعْتَذِرُ، لِئَلَّا يَجْمَعَ بَيْنَ ذَنْبَيْنِ، وَفِيهِ جَوَازُ التَّشْدِيدِ فِي اسْتِخْلَاصِ الْحَقِّ وَالتَّهْدِيدِ بِمَا لَا يَفْعَلُهُ الْمُهَدِّدُ تَخْوِيفًا لِمَنْ يُسْتَخْرَجُ مِنْهُ الْحَقُّ، وَفِيهِ هَتْكُ سِتْرِ الْجَاسُوسِ، وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهِ مَنْ يَرَى قَتْلَهُ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ لِاسْتِئْذَانِ عُمَرَ فِي قَتْلِهِ، وَلَمْ يَرُدَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، إِلَّا لِكَوْنِهِ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَيَّدَهُ بِأَنْ يَتَكَرَّرَ ذَلِكَ مِنْهُ، وَالْمَعْرُوفُ عَنْ مَالِكٍ يَجْتَهِدُ فِيهِ الْإِمَامُ، وَقَدْ نَقَلَ الطَّحَاوِيُّ الْإِجْمَاعَ عَلَى أَنَّ الْجَاسُوسَ الْمُسْلِمَ لَا يُبَاحُ دَمُهُ، وَقَالَ الشَّافِعِيَّةُ وَالْأَكْثَرُ يُعَزَّرُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْهَيْئَاتِ يُعْفَى عَنْهُ، وَكَذَا قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ: يُوجَعُ عُقُوبَةً وَيُطَالُ حَبْسُهُ، وَفِيهِ الْعَفْوُ عَنْ زَلَّةِ ذَوِي الْهَيْئَةِ.
امام رازی رحمہ اللہ:
امام رازی رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر تفسیر کبیر کی آٹھویں جلد صفحہ ۱۹۲ پر فرماتے ہیں: کافر کے ساتھ مسلمان کی دوستی کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔
پہلی صورت: یہ کہ وہ کافر کے ساتھ دوستی صرف اس کے کفر کی وجہ سے کرتا ہے اور اس کے کفر پر راضی ہوتا ہے، یعنی وہ کافر کے عقیدے کو صحیح سمجھتا ہے اور اس کے کفر کو پسند کرتا ہے۔ اس صورت میں کافر کے ساتھ دوستی کرنا درحقیقت کفر ہے؛ کیونکہ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ کافر کا دین درست ہے، وہ کفر کو درست سمجھتا ہے اور اس سے خوش ہے۔
دوسری صورت: یہ کہ مسلمان ظاہری طور پر دنیاوی لحاظ سے کسی کافر سے اچھا معاشرتی اور سماجی تعلقات رکھتاہے لیکن اس میں کفر کو قبول کرنا یا اس کے دین کو صحیح ماننا شامل نہیں ہوتا۔ امام رازی رحمہ اللہ کے مطابق، یہ صورت جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تیسری صورت ان دونوں کے درمیان ہے، جو نہ کفر ہے اور نہ ہی جائز ہے بلکہ حرام ہے کہ محبت یا رشتہ داری کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد اور تعاون کرے، بشرطیکہ یہ مدد دینے والا اس عقیدہ پر ہو کہ کافر کا دین باطل ہے؛ جیسا کہ امام رازی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ كَوْنَ الْمُؤْمِنِ مُوَالِيًا لِلْكَافِرِ يَحْتَمِلُ ثَلَاثَةَ أَوْجُهٍ أَحَدُهَا: أَنْ يَكُونَ رَاضِيًا بِكُفْرِهِ وَيَتَوَلَّاهُ لِأَجْلِهِ، وَهَذَا مَمْنُوعٌ مِنْهُ؛ لِأَنَّ كُلَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ كَانَ مُصَوِّبًا لَهُ فِي ذَلِكَ الدِّينِ، وَتَصْوِيبُ الْكُفْرِ كُفْرٌ وَالرِّضَا بِالْكُفْرِ كُفْرٌ، فَيَسْتَحِيلُ أَنْ يَبْقَى مُؤْمِنًا مَعَ كَوْنِهِ بِهَذِهِ الصِّفَةِ.
فَإِنْ قِيلَ: أَلَيْسَ أَنَّهُ تَعَالَى قَالَ: وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَهَذَا لَا يُوجِبُ الْكُفْرَ فَلَا يَكُونُ دَاخِلًا تَحْتَ هَذِهِ الْآيَةِ، لِأَنَّهُ تعالى قال: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ فَلَا بُدَّ وَأَنْ يَكُونَ خِطَابًا فِي شَيْءٍ يبقى المؤمن معه مؤمناو ثانيها: الْمُعَاشَرَةُ الْجَمِيلَةُ فِي الدُّنْيَا بِحَسَبِ الظَّاهِرِ، وَذَلِكَ غَيْرُ مَمْنُوعٍ مِنْهُ.
وَالْقِسْمُ الثَّالِثُ: وَهُوَ كَالْمُتَوَسِّطِ بَيْنَ الْقِسْمَيْنِ الْأَوَّلَيْنِ هُوَ أَنَّ مُوَالَاةَ الْكُفَّارِ بِمَعْنَى الرُّكُونِ إِلَيْهِمْ وَالْمَعُونَةِ، وَالْمُظَاهَرَةِ، وَالنُّصْرَةِ إِمَّا بِسَبَبِ الْقَرَابَةِ، أَوْ بِسَبَبِ الْمَحَبَّةِ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ دِينَهُ بَاطِلٌ فَهَذَا لَا يُوجِبُ الْكُفْرَ إِلَّا أَنَّهُ مَنْهِيٌّ عَنْهُ؛ لِأَنَّ الْمُوَالَاةَ بِهَذَا الْمَعْنَى قَدْ تَجُرُّهُ إِلَى اسْتِحْسَانِ طَرِيقَتِهِ وَالرِّضَا بِدِينِهِ، وَذَلِكَ يُخْرِجُهُ عَنِ الْإِسْلَامِ فَلَا جَرَمَ هَدَّدَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ فَقَالَ: وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ.
رومیوں اور اہل فارس کے مابین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ترجیح:
یاد دہانی: کفر کو اچھا اور پسندیدہ سمجھنا اور اس پر رضا مند ہونا، اس صورت میں کفر ہے جب یہ پسندیدگی اور رضا اسلام کے مقابلے میں ہو اور اگر یہ کسی دوسرے کافرانہ دین کے مقابلے میں ہو تو پھر یہ کفر نہیں ہے؛ جیسا کہ رومیوں اور فارسیوں کے درمیان جب جنگ ہوئی تو مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو یہ پسند آیا کہ رومی غالب آئیں کیونکہ وہ اہل کتاب تھے اور وہ روزقیامت پر ایمان رکھتے تھے۔
اسی طرح مشرکین مکہ یہ چاہتے تھے کہ فارسی غالب آئیں کیونکہ فارسی مجوس تھے، مشرک تھے اور ان کا دین کسی آسمانی کتاب یا دین سے منسلک نہیں تھا اور وہ قیامت (بعث بعد الموت) پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرماتے ہیں:
قَالَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ﴾ قَالَ: غَلَبَتْ وَغُلِبَتْ، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ أَهْلُ فَارِسَ عَلَى الرُّومِ، لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ أَوْثَانٍ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ.
مزید فرماتے ہیں:
عَنْ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ٣ فِىْ بِضْعِ سِنِيْنَ﴾ وَكَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَاهِرِينَ لِلرُّومِ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ، لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، وَفِي ذَلِكَ نَزَلَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ٤ بِنَصْرِ اللّٰهِؕ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُؕ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ﴾ وَكَانَتْ قُرَيْشُ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ؛ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ كِتَابٍ وَلَا إِيمَانٍ بِبَعْثٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَكَّةَ: ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ٣ فِىْ بِضْعِ سِنِيْنَ﴾
یہاں مسلمانوں کا رومیوں کی فتح کو پسند کرنا اس وجہ سے تھا کہ رومیوں کا دین بھی آسمانی دین تھا اور وہ آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے تھے اور ان کا عقیدہ بھی بعث بعد الموت (مرنے کے بعد زندگی کا) تھا؛ مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ تھا اور وہ بھی آسمانی دین اور کتاب پر ایمان رکھتے تھے اور بعث بعد الموت پر یقین رکھتے تھے، اس لیے رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان کچھ مشترکات تھیں، جو کہ فارسیوں کے ساتھ نہیں تھیں، کیونکہ فارسی مجوسی تھے۔
لہذا یہاں مسلمانوں کی رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی ہم آہنگی اور ہمدردی تھی، جو کہ ان کے دین کی وجہ سے تھی، نہ کہ اسلام کے مقابلے میں۔ یہ رومیوں کے ساتھ ایک مذہبی مشترکہ بنیاد کی وجہ سے تھی، جب کہ فارسیوں کے ساتھ یہ مشترکات نہیں تھیں کیونکہ وہ مجوسی تھے۔ اس لیے جب مسلمان کسی غیر اسلامی دین کے ساتھ محبت، ہمدردی اور تعاون کا اظہار کرتے ہیں، تو یہ کفر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اسلام کے مقابلے میں کسی کافرانہ دین کے ساتھ ہمدردی دکھانا کفر کی علامت ہے۔
انہی مذہبی مشترکات کی بنا پر بعض روایات میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رومیوں کو مجوسیوں کے مقابلے میں "إخواننا”(ہمارے بھائی) سے بھی تعبیر کیا ہے۔
یہ رومی کفار جو عیسائی ہیں، ان کے ساتھ ہمدردی اور محبت ان کے دین کی وجہ سے تھی اور ان کے دین کی وجہ سے ہی انہیں "إخواننا” کہا گیا، لیکن یہ سب کچھ دین اسلام کے مقابلے میں نہیں تھا بلکہ ایک دوسرے کفری اور باطل دین جو کہ فارس کے مجوسوں کا دین تھا، کے مقابلے میں تھا؛ تاہم دین اسلام کے مقابلے میں کسی بھی کفری دین اور نظام کے ساتھ ہمدردی، محبت اور اس کی فتح و کامیابی کی خواہش کرنا کھلا کفر ہے؛ جیسا کہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ اپنے تفسیر "روح المعانی” سورۃ روم کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
روي أن فارس غزوا الروم فوافوهم بأذرعات وبصرى، فغلبوا عليهم، فبلغ ذلك النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وأصحابه وهم بمكة، فشق ذلك عليهم، وكان صلى الله تعالى عليه وسلم يكره أن يظهر الأميون من المجوس على أهل الكتاب من الروم، وفرح الكفار بمكة وشمتوا، فلقوا أصحاب النبي صلى الله تعالى عليه وسلم، فقالوا: إنكم أهل كتاب، والنصارى أهل كتاب، وقد ظهر إخواننا من أهل فارس على إخوانكم من أهل الكتاب، وإنكم إن قاتلتمونا لنظهرن عليكم، فأنزل الله تعالى: ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢﴾ الآيات، فخرج أبو بكر رضي الله تعالى عنه إلى الكفار، فقال: أفرحتم بظهور إخوانكم على إخواننا، فلا تفرحوا ولا يفرسنّ الله تعالى عينكم، فوالله! ليظهرنّ الروم على فارس. أخبرنا بذلك نبينا صلى الله تعالى عليه وسلم.
اسی طرح کی روایات حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی سورۃ الروم کی تفسیر میں نقل کی ہیں؛ جیساکہ فرماتے ہیں:
قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ﴾ قَالَ: غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ فَارِسُ عَلَى الرُّومِ؛ لِأَنَّهُمْ أَصْحَابُ أَوْثَانٍ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ؛ لِأَنَّهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ.
اسی طرح ایک صفحہ بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ پسند تھا کہ رومی فارسیوں پر پر غالب آئیں، کیونکہ رومی اپنے دین کے لحاظ سے اہل فارس کی بنسبت مسلمانوں سے زیادہ قریب تھے، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عنه قَالَ: كَانَ فَارِسُ ظَاهِرًا عَلَى الرُّومِ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ فَارِسُ عَلَى الرُّومِ. وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ؛ لِأَنَّهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَهُمْ أَقْرَبُ إِلَى دِينِهِمْ.
امام ترمذی رحمہ اللہ بھی نیار بن مکرم الاسلمی کی روایت سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی فارسیوں پر غالب آئیں، کیونکہ دونوں اہل کتاب تھے اور مشرکین کو یہ پسند تھا کہ رومی شکست کھائیں اور اہلِ فارس غالب آئیں، کیونکہ دونوں گروہ اہل کتاب نہیں تھے اور ان کا بعث بعد الموت پر بھی ایمان نہیں تھا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ رومی چند سالوں میں غالب آئیں گے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خوشی کے مارے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں پھرنے لگے اور اس پیشگوئی کی خوشخبری دینے لگے جیسا کہ فرماتے ہیں:
قَالَ أَبُو عِيسَى التِّرْمِذِيُّ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ٣ فِىْ بِضْعِ سِنِيْنَ﴾ فَكَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَاهِرِينَ لِلرُّومِ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ؛ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، وفي ذلك قوله الله: ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ٤ بِنَصْرِ اللّٰهِؕ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُؕ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ٥﴾ وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ، لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ كِتَابٍ، وَلَا إِيمَانٍ بِبَعْثٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ، خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَكَّةَ ﴿الٓـمّٓ ١ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ٣ فِىْ بِضْعِ سِنِيْنَ﴾
ان تمام روایات کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص کسی ایک باطل دین اور نظام کے مقابلے میں دوسرے باطل دین اور نظام کے ساتھ محبت کا اظہار کرے یا اس کی حمایت کرے، تو یہ کفر نہیں ہے لیکن اگر وہ دین اسلام کے مقابلے میں اس کے ساتھ محبت کرے یا اس کی حمایت کرے، تو یہ کفر ہے۔ مثلاً ہندوستان میں ہمارے اکابر جیسے شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور دیگرعلماء جنہوں نے ہندوستان میں سیکولرازم کی حمایت کی تھی۔
سیکولرازم اگرچہ کفر ہے لیکن ہندوستان میں علماء کرام اور عام مسلمان جو سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں یا محبت، ہمدردی اور وفاداری کا اظہار کرتے ہیں، وہ ہندو ازم کے مقابلے میں ایسا کرتے ہیں نہ کہ اسلام کے مقابلے میں، کیونکہ سیکولر بھارت میں کچھ حد تک مسلمانوں کی مساجد، مدارس اور دینی اصلاحی و تبلیغی مراکز کی حفاظت اور سلامتی ممکن ہے لیکن ہندوازم میں اس حوالے سے خطرات اور مشکلات کا سامناکرناپڑتاہے اور ان اداروں کی حفاظت کے لیے کوئی قانونی راستہ بھی موجود نہیں ہے۔
یا جیسا کہ عالم اسلام میں بعض اسلامی جماعتیں جمہوریت کے ذریعے اسلامی نظام کے قیام یا اسلامی اقدار کے تحفظ کی کوشش کرتی ہیں اور جب بھی اسلامی اقدار اور مقدسات خطرے میں پڑتے ہیں تو وہ پرامن عوامی احتجاج کرتے ہیں یا جمہوری نظام کے تحت عدالتوں میں مقدمات دائر کرتے ہیں، حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور ان جمہوری طریقوں کے ذریعے کسی حد تک اسلامی اقدار اور مقدسات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ کام ان کے نزدیک آمرانہ حکومتوں اور فوجی ڈکٹیٹر شپ پر مبنی نظاموں کے مقابلے میں سیکولرازم میں نسبتاً آسان ہوتا ہے، اس لیے وہ نعرے لگاتے ہیں کہ ہمیں ملک میں جمہوریت چاہیے۔
اب اگر یہ نعرہ اسلام کے مقابلے میں کوئی بلند کرے تو یہ صاف اور واضح کفر ہے، جیسا کہ بعض سیکولر تنظیمیں اور جماعتیں ایسی ہیں جو اسلام کو صرف ایک انفرادی زندگی تک محدود دین اور مذہب سمجھتی ہیں اور اسے نظام کے طور پر نہیں مانتیں اور نہ ہی اس کے احیاء کا مطالبہ کرتی ہیں بلکہ وہ ایک آزاد جمہوریت اور ایک ایسا آزاد پارلیمانی نظام چاہتے ہیں جس میں کسی بھی دین یا مذہب کی کسی قسم کی پابندی نہ ہو، بلکہ وہاں کا معیار حق و باطل صرف اور صرف پارلیمنٹ کی اکثریتی رائے ہو۔