افراطی، تکفیری، اور خارجی نظریات اور خیالات کے نقصانات:
جب تکفیری اور خارجی جماعتیں اور خیالات پیدا ہوتے ہیں یا مسلم معاشروں میں در آتے ہیں، تو ان سے درج ذیل بڑے نقصانات پیدا ہوتے ہیں، جیسے:
۱:- مسلم معاشرے میں محبت کا خاتمہ ہوتا ہے، بغض، نفرت اور حسد پیدا ہوتا ہے، معاشرہ اختلافات کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ معاصر جہاد میں جب جماعت قاعدۃ الجہاد اور کچھ دیگر جہادی تحریکوں میں تکفیری عناصر در آئے، تو ان جہادی تحریکوں میں بدترین اختلافات پیدا ہو گئے، ایک دوسرے کو قتل کیا، مسلم معاشروں میں ان کی نیک نامی بہت متاثر اور کمزور ہوئی، اور یہ کمزور ہونے لگے، بلکہ بعض جہادی تحریکیں تقریباً ختم ہو گئیں یا نیست و نابود ہو گئیں، جیسے قفقاز کی جہادی تحریک، وسطی ایشیاء کی جہادی تنظیمیں، اور کچھ افریقی اسلامی ممالک میں جہادی تحریکیں۔
۲۔ فرقہ پرستی اور مذہبی و مسلکی تعصب پیدا ہونا۔
۳۔ انتشار اور بد نظمی پیدا ہونا۔
۴۔ مسلمانوں کا کمزور ہونا۔
۵۔ کفار اور ان کے اتحادی ایسے موقع سے سیاسی اور فوجی فائدہ اٹھاتے ہیں، ایک طرف مجاہدین کے داخلی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر اہم عسکری مقامات کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں، دوسری طرف عوام میں مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈا اور ذہن سازی کرتے ہیں، یہ ان کے لیے بہترین موقع ہوتا ہے، جسے وہ ضائع نہیں کرتے، بہت کم وقت میں جنگ کا نقشہ اور صورت حال بدل جاتی ہے، دشمن منظم ہونے اور تقویت حاصل کرنے کی طرف بڑھتا ہے، اور جہادی تحریک اپنے داخلی اختلافات، ایک دوسرے کے قتل اور تکفیر کی وجہ سے کمزوری، شکست اور مایوسی کی طرف چل پڑتی ہے، عراق، شام اور لیبیا کی جہادی تحریکیں اس کے زندہ مثالیں ہیں۔
۶۔ اپنے شرعی اور جہادی امراء کے خلاف بغاوت کرنا۔
۷۔ معصوم خون اور مال کو حلال سمجھنا۔
۸۔ سلف صالحین اور بزرگوں کے خلاف جرأت کرنا، بلکہ ان کی توہین کرنا، جیسا کہ خوارج کے ایک راہنما عمرو بن عبید کہا کرتے تھے:
’’لو شهد عندي عليّ وطلحة والزُّبير وعثمان على شِراك نعلي ما أجزتُ شهادتهم ما أجزت شهادتهم‘‘.
(الكوكب الوهَّاج والرَّوض البَهَّاج في شرح صحيح مسلم)ترجمہ: اگر علی، عثمان، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنہم) میرے جوتے کی تسمے پر گواہی دیں، تو میں ان کی گواہی قبول نہیں کروں گا۔
یا جیسے معاصر تکفیری اور خوارج جو دنیا کے اکثر علماء کو مرجئہ سمجھتے ہیں، حالانکہ ان علماء کی قابلِ قدر دینی خدمات ہیں اور یہ علماء (معاصر تکفیریوں) کی بنسبت اہل سنت، مرجئہ، خوارج اور دیگر گروہوں کے عقائد و منہج کے حوالے سے کافی گہرا علم رکھتے ہیں، لیکن ان تکفیریوں کے لیے یہ جبال العلم اور اہل سنت و الجماعت کے رہنماء مداہنت کرنے والے، باطل پرست ہیں، یہاں تک کہ انہیں مرتدین نظر آتے ہیں۔
ان علماء کو اس لیے مطعون ٹھہراتے ہیں کہ وہ مسلح قیام میں حصہ نہیں لیتے، یا ان کے کردار سے مطمئن نہیں ہوتے، یا وہ دیني، تعمیری کاموں میں بہت عرصے سے مصروف ہیں اور یقیناً مسلمانوں کو فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی ضرورت بھی ہے، یا انہیں مسلح بغاوت کی کامیابی کا یقین نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے سادہ اور پُرامن خدمات اور اداروں کی بقاء اور تسلسل کے لیے مسلح قیام سے لا تعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔
۹۔ امن و امان کی صورت حال کا مخدوش ہونا:
جن معاشروں میں تکفیری اور خارجی عناصر دراندازی کرتے ہیں، وہ امن و سکون سے نہیں رہ سکتے۔ تکفیری اور خارجی عناصر نے گزشتہ دہائی میں بڑی تعداد میں تخریبی کارروائیاں اور آپریشنز کیے ہیں جو شرعی اور سیاسی دونوں لحاظ سے فاش غلطیاں تھیں اور جن سے اسلامی جہادی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
تکفیری اور خارجی خیالات کے ارتقاء میں مسلمانوں کے خلاف موالات، حمایت اور مظاہرۃ کرنے کے حوالے سے سلف اور اہل سنت کے موقف کو چھوڑنے اور افراطی وہابی تحریک کے بعض رہنماؤں کی فتووں کے پیچھے چلنے نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہادی ادب میں سلف اور اہل سنت کے مؤقف پر زیادہ توجہ دی جائے، ورنہ غیر سنی اور شاذ مواقف جہادی تحریکوں کو اسلامی معاشروں میں نقصان کی طرف لے جائیں گے اور یہ افراطی، غیر سنی اور سلف صالحین کے مخالف مواقف خود بخود تکفیریوں اور خارجیوں کو جنم دیں گے۔
یہ جو خارجی اور افراطی عناصر ہیں، وہ اپنی افراطی اور غیر سنی افکار کے تناظر میں جہادی تحریکات کے لیے عسکری، سیاسی، دعوتی اور ابلاغی پالیسیز مرتب کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے فتاوی، دعوتی بیانات اور عسکری اقدامات پیدا ہوتے ہیں جو بہت کم وقت میں ایک اچھی جہادی تحریک کو صفر نقطے تک پہنچا دیتے ہیں۔
مثلاً جمعہ، عید اور جنازہ کے اجتماعات میں ہونے والے دھماکے، تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملے، ان سب کے پیچھے یہ تصور تھا کہ یہ غیر شرعی اقدامات اور جہاد کے تباہ کن عسکری اقدامات جنت اور ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، جس کی وجہ سے عالمی جہادی تحریکوں کا سیلاب خطرناک مشکلات اور ناکامیوں سے دوچار ہوا۔
امام ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ:
مالکی مکتبہ فکر کے مشہور امام، فقیہ، بڑے محدث اور مفسر امام ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ اپنی تفسیر "احکام القرآن” کی چوتھی جلد کے صفحہ 225 ہر فرماتے ہیں:”
مَنْ كَثُرَ تَطَلُّعُهُ عَلَى عَوْرَاتِ الْمُسْلِمِينَ وَيُنَبِّهُ عَلَيْهِمْ وَيُعَرِّفُ عَدُوَّهُمْ بِأَخْبَارِهِمْ لَمْ يَكُنْ بِذَلِكَ كَافِرًا، إذَا كَانَ فِعْلُهُ لِغَرَضٍ دُنْيَوِيٍّ، وَاعْتِقَادُهُ عَلَى ذَلِكَ سَلِيمٌ، كَمَا فَعَلَ حَاطِبُ بْنُ أَبِي بَلْتَعَةَ حِينَ قَصَدَ بِذَلِكَ اتِّخَاذَ الْيَدِ وَلَمْ يَنْوِ الرِّدَّةَ عَنِ الدِّينِ.
امام ابن العربی رحمہ اللہ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے خلاف کافروں کو بہت زیادہ جاسوسی کرتا ہے، لیکن یہ دنیاوی فائدے کے لیے کرتا ہے اور اس کا عقیدہ صحیح ہے، تو وہ اس عمل میں نہ کافر ہے اور نہ مرتد۔ جیسے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، اس کا مقصد نعوذ باللہ دین سے ارتداد نہیں تھا، بلکہ اس نے اپنے ذاتی اور خاندانی مفاد کے لیے کافروں پر احسان کیا تھا۔
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن حمادۃ الجبرین اپنے کتاب "تسہیل العقیدہ الاسلامیہ” کے حاشیے میں، جلد اول، صفحہ 571 پر لکھتے ہیں کہ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا وہ ارتداد نہیں تھا۔ اگرچہ معاملہ یہ تھا کہ اگر یہ مکتوب قریش تک پہنچ جاتا، تو وہ یقینی طور پر جنگ کے لیے تیار ہو جاتے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ارادے کے خلاف تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ یہ خبر خفیہ رہے، تو حاطب رضی اللہ عنہ نے جو کیا، وہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک اہم جنگ میں کافروں کے ساتھ بڑی مدد اور تعاون تھا، مگر یہ کفر یا ارتداد نہیں تھا، کیونکہ اس تعاون کا سبب عقیدے کا فساد نہیں تھا، بلکہ یہ صرف ایک خاندانی اور ذاتی فائدے اور منفعت کے لیے تھا۔