امارت اسلامیہ کے خلاف داعشی خوارج کے پروپیگنڈے اوراعتراضات کا شرعی جائزہ | اکیسویں قسط

مولوی احمد علی

التولّي والموالاة (الولاء والبراء):

وہابی نجدی تحریک کے کچھ سرکردہ علماء مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے کفار کی مدد کو تولّی کہتے ہیں، اور اسے موالات کی ایک خاص قسم قرار دیتے ہیں، اور اسے قطعی طور پر کفر کا سبب سمجھتے ہیں، چاہے اس کا سبب کچھ بھی ہو۔ تاہم پھر بھی بیشتر مفسرین تولّی کو موالات سے تفسیر و تعبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہابی مکتبہ فکر کے ایک عالم، ڈاکٹر عبدالعزیز بن محمد بن علی ابن عبد اللطیف نے اپنے کتاب "نواقض الایمان العملیة” کی پہلی جلد صفحہ۱۱۴ پر لکھا ہے:

وهذا ما يسميه بعض العلماء بـ”التولي” ويجعلونه أخص من عموم الموالاة، كما هو عند بعض أئمة الدعوة السلفية في نجد، مع أن جمهوراً من المفسرين يفسرون التولي بالموالاة، فعلى سبيل المثال نذكر ما يلي: – يقول ابن عطية عند تفسيره لقوله تعالى: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ [التوبة، آية 23]: أي والاهم واتبعهم في أغراضهم.

ويقول ابن كثير عند تفسيره لقوله عز وجل: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُورِ ١٣..﴾ [الممتحنة، آية 13]: ينهى تبارك وتعالى عن موالاة الكافرين في آخر هذه السورة، كما نهى عنها في أولها، فقال تعالى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا..﴾ فكيف توالونهم وتتخذونهم أصدقاء وأخلاء.

ويقول البيضاوي عند تفسيره لقوله سبحانه: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ [المائدة، آية 51] ” أي من والاهم منكم، فإنه في جملتهم، وهذا للتشديد في وجوب مجانبتهم.

صاحبِ کتاب فرماتے ہیں کہ اس بات کی تائید لغت سے بھی ہوتی ہے، کہ تولی موالات کے معنی میں ہے، جیسے لکھاہے:

وما يؤكد أن التولي يكون بمعنى الموالاة، ما جاء في لغة العرب، فإن التولي والموالاة من مادة واحدة وهي: ولي بمعنى قرب، والولي: الناصر ضد العدو. (صـ 382)

ولذا فإن شيخ المفسرين ابن جريررحمه الله تعالى- في عدة مواضع من تفسيره – يفسر معنى اتخاذ الكفار أولياء بمعنى جعلهم أنصاراً، وهو بمعنى توليهم.

حاشیہ میں درج ذیل کتبِ لغت کا حوالہ دیاہے:

انظر: معجم مقاييس اللغة لابن فارس 6/141، وترتيب القاموس المحيط 4/658، والمصباح المنير ص 841، ومفردات الراغب ص 837، ومختار الصحاح للرازي ص 736، ونزهة الأعين النواظر لابن الجوزي.

اس کے بعد لکھاہے کہ:

وإذا كان التولي بمعنى الموالاة، فكما أن موالاة الكفار ذات شعب متفاوتة، منها ما يخرج من الملة كالموالاة المطلقة لهم، ومنها ما دون ذلك فإن تولي الكفار مثل موالاتهم، فهناك التولي المطلق التام الذي يناقض الإيمان بالكلية، وهناك مراتب دون ذلك.

ترجمہ:جب تولّی کو موالات کے معنی میں لیا جائے تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ موالات کے مختلف شعبے اور اقسام ہیں اور ہر ایک کا اپنا الگ حکم ہوگا، کچھ ایسے ہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے نکال دیتے ہیں، جیسے مطلق موالات؛ یعنی ہر چیز میں ان کے ساتھ موالات، جن میں عقیدے کی موالات بھی شامل ہے، جیسا کہ ابن عاشور کے حوالے سے پہلے مکمل موالات کی تعریف ذکر کی گئی کہ: ’’الّتي هِيَ الرّضى بِدِينِهِمْ وَالطَّعْنُ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ‘‘ جو کہ ان کے دین سے راضی ہونا اور دینِ اسلام پر تنقید کرنا ہے”۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اس سے کم ہوتے ہیں، یعنی بعض چیزوں میں ہوتے ہیں اور بعض میں نہیں، مثلاً عقیدے میں نہیں، لیکن دنیاوی اغراض کے لیے ہوتے ہیں۔

اسی طرح کفار کے ساتھ تولّی بھی موالات کی طرح ہے، ایک وہ ہے جو مکمل اور مطلق تولّی ہے (یعنی ہر چیز میں تولّی جو عقیدہ تک شامل ہو) تو وہ ایمان کے مکمل نقض کا باعث ہے، اور کچھ مراتب ایسے بھی ہیں جو اس سے کم ہوتے ہیں۔

اور پھر وہ کہتے ہیں:

ولذا يقول الشيخ عبد الرحمن السعدي عند تفسيره لقوله تعالى: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٩﴾ [الممتحنة، آية 9]: – ” وذلك الظلم يكون بحسب التولي، فإن كان تولياً تاماً، كان ذلك كفراً مخرجاً عن دائرة الإسلام، وتحت ذلك من المراتب، ما هو غليظ وما هو دونه.

ويقول عند تفسيره لقوله تعالى: – ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ [المائدة:51]: "إن التولي التام يوجب الانتقال إلى دينهم، والتولي القليل يدعو إلى الكثير، ثم يتدرج شيئاً فشيئاً حتى يكون العبد منهم.

ترجمہ: اسی وجہ سے شیخ عبدالرحمن السعدی نے اپنی تفسیر میں الله تعالی کے فرمان ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٩﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

یہ ظلم تولّی کے برابر ہوگا، اگر تولّی مکمل اور کامل ہو، تو یہ کفر ہے اور اسلام سے خارج کرنے والا ہے۔ اس تولّی کے مختلف مراتب ہیں: کچھ بہت شدید اور سخت ہیں، اور کچھ ان سے کمزور ہیں۔ اللہ سبحانه وتعالیٰ کے اس قول کے تفسیر میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَإِنَّهُۥۤمِّنْهُمْ﴾ [المائدة:51] کہ یقیناً مکمل اور کامل تولّی انسان کو اس کے دین سے ہٹا دیتی ہے، جب کہ کمزور اور تھوڑی تولّی انسان کو بہت سی چیزوں کی طرف دعوت دیتی ہے، اور آہستہ آہستہ بڑھتی ہے، یہاں تک کہ انسان آخرکار ان کے ساتھ ہوجاتا ہے۔

یاد رہے کہ شیخ عبدالرحمن السعدی رحمه الله وہابی مکتبہ فکر کے مشہور اور معتبر علماء میں سے ہیں، اور وہابی مکتبہ فکر میں ابن باز اور ابن عثیمین رحمهما الله کی طرح ان کا مقام اور حیثیت تھی۔

مقصد: یہ اصطلاحات ہیں، چاہے انہیں تولّی کہا جائے یا موالات، لیکن ہماری ان عبارتوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ تولّی اور موالات مطلقاً کفر نہیں ہے، لیکن اگر وہ مکمل تولّی اور موالات ہو، جیسے دینِ کفر سے محبت کرنا، یا ان کی مدد کرنا تاکہ وہ مسلمانوں پر غالب آئیں، تو یہ کفر ہے؛ لیکن اگر یہ عقیدے کے فساد اور خبث کی وجہ سے نہ ہو بلکہ دنیاوی اغراض کے لیے ہو، تو یہ گناہ ہے؛ کفر نہیں۔

جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جیسا کہ تمام سلف، متقدّمین اور متأخّرين کا اس بات پر اجماع ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ عمل خارج عن الملۃ نہیں تھا، کیونکہ یہ عقیدے کے فساد اور انحراف پر مبنی نہیں تھا، اور خود انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی تھی، جیسا کہ صحیح بخاری میں آتا ہے:

وَاللهِ! مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ، يَدْفَعُ اللهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي.

"واللہ! مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں سے نہ ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ میری قوم کے ساتھ تعلق مضبوط ہو تاکہ اس کے ذریعے اللہ میرے اہل و مال کی حفاظت کرے۔”

خلاصہ یہ ہے کہ میں نے کافروں کے ساتھ جاسوسی اور مدد کفر اور ارتداد کی وجہ سے نہیں کی، بلکہ صرف اس لیے کی کہ میں ان پر احسان کر رہا تھا تاکہ اپنے اہل و عیال کی حفاظت کر سکوں۔

اسی وجہ سے امت کا اجماع ہے کہ جو مسلمان عقیدے میں انحراف کا شکار نہیں ہو تو وہ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے پر مرتد نہیں ہوتا۔ ہم نے امام محمد رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر سلف، متقدّمین اور متأخّرين کے اقوال اور مواقف ذکر کیے ہیں، جنہوں نے کہا کہ اگر عقیدے کا انحراف نہ ہو، تو کسی مسلمان کی جانب سے کفار سے تعاون اور مدد کرنے کا عمل کفر اور خارج عن الملۃ عمل نہیں ہے۔

Author

Exit mobile version