امارت اسلامیہ کے خلاف داعشی خوارج کے پروپیگنڈے اوراعتراضات کا شرعی جائزہ | دوسری قسط

مولوی احمد علی

#image_title

داعشی خوارج، اپنے پیشروؤں کی طرح اپنے منحرف نظریات کی بنیاد پر اہل السنۃ والجماعت کی تمام جہادی تحریکوں جیسے امارت اسلامیہ، القاعدہ، جبہۃ النصرہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگرجماعتوں کی تکفیر کرتےہیں اورانہیں مباح الدم سمجھتے ہیں۔

ان کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈے کر رہے ہیں، حال ہی میں وائس آف خراسان میگزین کے39 ویں ایڈیشن میں انہوں نے امارت اسلامیہ، امریکہ اوراسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا دعویٰ کیا ہے اور کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دی ہے۔

یہ لوگ جہاد کے نام پر جہاد کی صفوں اور محاذوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، عقیدہ کے لحاظ سے وہ اہل السنۃ والجماعت کے اعتدال پسند طریقے سے ہٹ کرہیں، ان کی عسکری پالیسی، طریقہ کار اور حکمت عملی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے طریقے سے میل نہیں کھاتے۔

یہ حقیقت ہے کہ ضعف کے زمانے کے احکام مختلف ہیں اور قوت کے زمانے کے احکام الگ؛ ایک ہی وقت میں، ہر جگہ، ہر کسی کے ساتھ جنگی میدان کھولنا کہ حالت بھی ضعیف وکمزورہو، یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے خلاف عمل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک وقت میں، ہر جگہ، تمام دشمنوں سے جنگ نہیں کی؛ بلکہ الاھم فالاھم کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک وقت میں کئی محاذ نہیں کھولتے؛ کہ یہ مسلمانوں کے کمزورہونے کی وجہ سے اس کاتحمل نہیں کرسکتےاور اس کے علاوہ بہت سے جنگی محاذوں کا فائدہ اس وقت کے اہم دشمن قریش کو پہنچتا۔

اس لیے مسلمانوں نے مدینے کے آس پاس موجود دیگراقوام وقوتوں سے مذاکرات، معاہدوں کو ترجیح دی تھی، جنگ احزاب میں نبی علیہ السلام نے قبیلہ غطفان سے مدینے کے تہائی پیداوار کے بدلے جنگ بندی اور صلح کا معاہدہ صرف اس لیے کیاتھاکہ غطفان قبیلہ قریش کے اتحاد سے نکل جائے؛ کیونکہ آپ علیہ السلام کو یہ فکر لاحق تھی کہ اگر اس قبیلے سے معاہدہ نہ کیاگیا تومسلمان اتنی بڑی اورمتحد طاقت کامقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

اسلام دین فطرت ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کاایک بہترین قانون اور منظم طرز عمل ہے؛ جنگوں، معاہدات، صلح اور اسی طرح مختلف اقوام، مذاہب اور طاقتوں کے ساتھ مختلف اوقات میں زندگی گزارنے، ان سے تعلقات رکھنے کےلیے دین اسلام بطور قانون ومنہج ایک بہترین طریقہ ہے۔

یہ جوخوارج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سفھاء الاحلام تھے، وجہ یہ تھی کہ ان میں فقہ وسمجھ نہیں تھی، اپنے آپ کوتقوی دار اور دین کی بہتر سمجھ والے سمجھتے، نیکو کارسلف صالحین پر بدگمان تھے؛ یہاں تک کہ ان کے رہنما اور بانی نے نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقویٰ اورسمجھ پر شک کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا "اعدل یا محمد” اے محمد! انصاف سے کام لو۔

وہ اپنی حماقت کی وجہ سے ایسی حرکتیں کرتے ہیں، لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں، ہم اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے لیے کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ:

الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا۔

ترجمہ: وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین مختلف مصداق بیان کرتے ہیں؛ حضرت علیؓ نے اس کی تفسیر میں فرمایا: اس آیت کا مصداق خوارج ہیں، جیسے علامہ قرطبیؒ نے نقل کیاکہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

اس آیت کا مصداق خوارج ہیں۔

ابن عطیة رحمه الله بھی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

علی بن ابی طالب نے کہا ہے کہ ’’اس آیت کامصداق خوارج ہیں‘‘ اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ خوارج بہت برے لوگ ہیں اور میں روئے زمین پران سے بدتر مخلوق کونہیں جانتا، جیسے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی کی ۱۹ویں جلد صفحہ ۷۲میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ: ’’خوارج بدترین لوگ ہیں، روئےزمین پر ان سے شریر لوگوں کو میں نہیں جانتا‘‘۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ مسلمانوں کے لیے کافروں سے زیادہ برے اور نقصان دہ ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:

خوارج امت محمدیہ کے بدعتی فرقوں اور یہود ونصاری سے بڑھ کر شریر ومفسد ہیں۔

حافظ نے ابن ہبیرہ سے نقل کیا ہے کہ:

أن قتال الخوارج أولی من قتال المشرکین، والحکمة فیه أن في قتالهم حفظ رأس مال الاسلام، و في قتال أهل الشرک طلب الربح، و حفظ رأس المال أولي۔

ترجمہ: خوارج سے جنگ کرنا مشرکین سے جنگ کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ خوارج سے جنگ میں حکمت اسلام کے سرمائے کی حفاظت ہے، اور مشرکین سے جنگ میں زیادہ نفع حاصل کرنا ہے، اور سرمائے کی حفاظت نفع سے مقدم ہے۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ منهاج السنة النبویة کی پانچویں جلد کے صفحہ 243 پرخوارج کے بارے میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَقَدِ اتَّفَقَ الصَّحَابَةُ وَالْعُلَمَاءُ بَعْدَهُمْ عَلَى قِتَالِ هَؤُلَاءِ ; فَإِنَّهُمْ بُغَاةٌ عَلَى جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ، سِوَى مَنْ وَافَقَهُمْ عَلَى مَذْهَبِهِمْ، وَهُمْ يَبْدَءُونَ الْمُسْلِمِينَ بِالْقِتَالِ، وَلَا يَنْدَفِعُ شَرُّهُمْ إِلَّا بِالْقِتَالِ، فَكَانُوا أَضَرَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنْ قُطَّاعِ الطَّرِيقِ. فَإِنَّ أُولَئِكَ إِنَّمَا مَقْصُودُهُمُ الْمَالُ، (فَلَوْ أُعْطُوهُ لَمْ يُقَاتِلُوا، وَإِنَّمَا يَتَعَرَّضُونَ لِبَعْضِ النَّاسِ) وَهَؤُلَاءِ يُقَاتِلُونَ النَّاسَ عَلَى الدِّينِ حَتَّى يَرْجِعُوا عَمَّا ثَبَتَ. بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ إِلَى مَا ابْتَدَعَهُ هَؤُلَاءِ بِتَأْوِيلِهِمُ الْبَاطِلِ وَفَهْمِهِمُ الْفَاسِدِ لِلْقُرْآنِ.

ترجمہ: صحابہ کرام اور ان کے بعد علماء نے خوارج کے خلاف جنگ کرنے پر اتفاق کیاہے؛ کیونکہ خوارج تمام مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر چکے ہیں، سوائے ان کے جو ظاہری عقیدے میں ان کے دوست ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ابتداکرتے ہیں، ان کی برائی وشر جنگ کے بغیرکسی دوسرے طریقے سے ختم نہیں کی جاسکتی۔

یہ مسلمانوں کے لیے ڈاکوؤں اورراہزنوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں، کیونکہ ڈاکوؤں اورراہزنوں کا ہدف مال ہوتا، اگرانہیں مال دے دیا جائے تو وہ مسلمانوں سے نہیں لڑتے، اسی طرح ڈاکو اور راہزن صرف چند لوگوں پر حملہ کرتے ہیں، جبکہ خوارج لوگوں سے دین کی بنیاد پر لڑتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اس دین سے ہٹا دیں؛ جو کتاب و سنت اوراجماع صحابہ سے ثابت ہے اوراپنے دین کی طرف پھیردیں جسے خارجیوں نے قرآن کریم کی غلط تشریحات اور فاسد فہم کی وجہ سے خود سے پیدا کیا ہے؟

یہ اتنے بدترین لوگ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: (لئن أدرکتهم لأقتلنهم قتل عاد) اگرمیرے ہاتھ لگیں تو انہیں قوم عاد کی طرح ختم کرڈالوں گا، دوسری روایت میں آتاہے: "افلح من قتلھم او قتلوہ” سب سے زیادہ کامیاب وہ ہے جو خوارج کو قتل کرے یا خوارج اسے قتل کریں۔

جاری ہے…

Author

Exit mobile version