شیخ عبد اللطیف رحمہ اللہ:
شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب النجدي رحمہ اللہ، جو کہ وہابی تحریک کے مؤسس، شیخ محمد بن عبد الوہاب النجدي رحمہ اللہ کے پڑپوتے اور ایک جلیل القدر عالم تھے، بلکہ وہابی تحریک کے ائمہ میں شمار کیے جاتے ہیں، انہوں نے "مجموعة الرسائل والمسائل النجدية” جلد سوم، صفحہ ۷ پر "قصة حاطب وآيات سورة الممتحنة في موالاة المشركين” کے عنوان کے تحت حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے مشرکین کو خط لکھنے کے واقعے کو ذکر کیا ہے اور اس سے کچھ فوائد اخذ کیے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ عمل "موالاة” (یعنی مشرکین کے ساتھ دوستی) کی ایک قسم تھا، اور یقیناً ایسا عمل کرنے والے سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ’’صدقكم، خلوا سبيله‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ عملِ کفر نہیں تھا اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ اس کی وجہ سے کافر نہیں ہوئے، کیونکہ ان کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان انتہائی مضبوط تھا اور انہیں اس ایمان میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ کام انہوں نے محض دنیاوی مصلحت کے تحت کیا تھا۔ اور اگر وہ اس عمل سے کافر ہو جاتے، تو نبی کریم ﷺ یہ نہ فرماتے: "خلوا سبيله” (اسے چھوڑ دو)۔
اور کوئی یہ بھی نہ کہے کہ ’’یہ تو بدری صحابی تھے اور اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کے بارے میں فرمایا ہے: ’اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم‘ (جو چاہو کرو، میں نے تمہیں معاف کر دیا)‘‘ تو اس لیے یہ الٰہی اعلان ان کے کافر ہونے میں مانع بن گیا۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ کفر کسی بھی نیکی کو باقی نہیں چھوڑتا، بلکہ وہ ہر قسم کے حسنات اور نیک اعمال کو ختم کر دیتا ہے۔ جب کفر واقع ہو جائے تو پھر کوئی نیکی باقی نہیں رہتی، تو پھر کون سی چیز مانع بنے گی؟ اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ کفر، ایمان سمیت تمام نیک اعمال کو ختم کر دیتا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ﴾
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (الأنعام: ۸۸)
لیکن موالات (کفار کے ساتھ دوستی) کے بارے میں جو آیات ہیں، ان کی سنت (یعنی احادیث) نے تفسیر کی ہے، ان کو خاص کیا ہے اور انہیں ’’موالاتِ مطلقہ عامہ‘‘ تک محدود کر دیا ہے۔ یعنی ان آیات میں کامل موالات مراد ہے— وہ موالات جو کسی دنیاوی غرض کے لیے نہیں، بلکہ عقیدے کی خرابی اور باطنی خبث کی وجہ سے ہو۔
اور اس موالاتِ مطلقہ یا موالاتِ تامّہ کے تحت مزید مختلف درجات آتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا مسلک ہے، کیونکہ یہی سلف صالحین اور ’’راسخون فی العلم‘‘ ہیں۔
اس بارے میں جیسے وہ فرماتے ہیں:
وتأمل قصة حاطب بن أبي بلتعة وما فيها من الفوائد، فإنه هاجر إلى الله ورسوله، وجاهد في سبيله، لكن حدث منه أنه ” كتب بسر رسول الله ﷺ إلى المشركين من أهل مكة يخبرهم بشأن رسول الله ﷺ ومسيره لجهادهم ليتخذ بذلك يدًا عندهم، يحمي أهله وماله بمكة. فنَزل الوحي بخبره. وكان قد أعطى الكتاب ظعينة جعلته في شعرها، فأرسل رسول الله ﷺ عليًّا والزبير في طلب الظعينة، وأخبر أنهما يجدانها في روضة خاخ. فكان ذلك، فتهدداها حتى أخرجت الكتاب من ضفائرها، فأتي به رسول الله ﷺ.
فدعا حاطب بن أبي بلتعة فقال له: "ما هذا؟” فقال: يا رسول الله! إني لم أكفر بعد إيمان، ولم أفعل هذا رغبة عن الإسلام، وإنما أردت أن تكون لي عند القوم يد، أحمي بها أهلي ومالي، فقال ﷺ: "صدقكم، خلوا سبيله”. واستأذن عمر في قتله فقال: دعني أضرب عنق هذا المنافق؟ فقال: "وما يدريك أن الله اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم”.
وأنزل الله في ذلك صدر سورة الممتحنة فقال: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ الآيات، فدخل حاطب في المخاطبة باسم الإيمان ووصفه به، وتناوله النهي بعمومه، وله خصوص السبب الدال على إرادته، مع أن في الآية الكريمة ما يشعر أن فعل حاطب نوع موالاة، وأنه أبلغ إليـهم بالمودة، فإن فاعل ذلك قد ضل سواء السبيل؛ لكن قوله: "صدقكم خلوا سبيله” ظاهر في أنه لا يكفر بذلك إذا كان مؤمنا بالله ورسوله غير شاك ولا مرتاب، وإنما فعل ذلك لغرض دنيوي.
ولو كفر لما قيل: "خلوا سبيله”. لا يقال: قوله ﷺ لعمر: "وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم” هو المانع من تكفيره، لأنا نقول: لو كفر لما بقي من حسناته ما يمنعه من لحاق الكفر وأحكامه. فإن الكفر يهدم ما قبله لقوله تعالى: ﴿وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْاِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ﴾، وقوله تعالى: ﴿وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٨٨﴾، والكفر محبط للحسنات والإيمان بالإجماع؛ فلا يظن هذا.
وأما قوله: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾، وقوله: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾، وقوله تعالى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَآءَ ج وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٥٧﴾، فقد فسرته السنة وقيدته وخصته بالموالاة المطلقة العامة.
وأصل الموالاة هو الحب والنصرة والصداقة، ودون ذلك مراتب متعددة، ولكل ذنب حظه وقسطه من الوعيد والذم، وهذا عند السلف الراسخين في العلم من الصحابة والتابعين معروف في هذا الباب وغيره. وإنما أشكل الأمر وخفيت المعاني والتبست الأحكام على خلوف من العجم والمولدين الذين لا دراية لهم بهذا الشأن، ولا ممارسة لهم بمعاني السنة والقرآن.
اسی طرح شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ اپنی کتاب "عیون الرسائل والأجوبة” جلد اول، صفحہ ۲۱۷ میں فرماتے ہیں کہ شیخ المفسرین امام طبری رحمہ اللہ نے جب موالات (کفار کے ساتھ دوستی) کو کفر قرار دیا ہے، تو اس سے ان کی مراد ’’موالاتِ مطلقہ عامہ‘‘ یعنی کامل موالات مراد ہے، وہ موالات جو عقیدے کی خرابی اور باطنی خبث کی وجہ سے ہو، اور بلا شبہ یہی حقیقی کفر ہے۔
لیکن حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، بلکہ وہ اس کے قریب بھی نہیں گئے تھے۔ بلکہ انہوں نے محض اپنے ذاتی فائدے کے لیے کفار پر احسان کیا تھا۔
یعنی نہ تو وہ کفار کے دین سے راضی تھے، نہ ہی (نعوذ باللہ) ان کے عقیدے پر ایمان رکھتے تھے۔ بلکہ محض دنیاوی مصلحت کی بنا پر یہ عمل سرزد ہوا تھا۔ الحمدللہ، ان کے عمل میں کوئی عقیدے کی خرابی یا باطنی خبث موجود نہیں تھا۔
قال الإمام الطبري – (رحمه الله) -: "يعني -تعالى ذكره- بقوله: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ ومن يتول اليهود والنصارى دون المؤمنين، فإنه منهم يقول: فإن من تولاهم ونصرهم على المؤمنين، فهو من أهل دينهم وملتهم، فإنه لا يتولى متولٍ أحداً إلا وهو به وبدينه وما هو عليه راضٍ، وإذا رضيه ورضي دينه فقد عادى ما خالفه وسخطه، وصار حكمه حكمه”.
جامع البيان عن تأويل أي القرآن لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري، (ت 310هـ) دار الفكر، 1408هـ، 6/277.
وهذا النوع من الموالاة التي ذكرها الطبري هو الموالاة المطلقة العامة، وهو ما لم يقترب إليه حاطب بن أبي بلتعة رضي الله عنه، إذ إنه أراد مجرد اتخاذ يدٍ عندهم يحفظ ماله.