عقیدہ کے لحاظ سے داعشی خوارج سابقہ خوارج کی طرح اہل سنت والجماعت کے معتدل عقیدے اور طریقہ کار سے منحرف ہوچکے ہیں، ان باتوں اور اعمال کی بناء پر مسلمانوں اور مجاہدین کی تکفیر کرتے ہیں، جوتکفیر کے اسباب ہیں ہی نہیں، بلکہ ان میں سے بعض شرعاً جائز اور صحیح ہیں۔
جس طرح علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خوارج نے صحابہ کرام کی ایسے معاملے کی وجہ سے تکفیر شروع کردی تھی جو گناہ کے بجائے ایک جائز اور شرعاً مطلوب امر، مسلمانوں کے درمیان صلح تھی۔
داعشی خوارج بھی ایسے معاملات کی وجہ سےامارت اسلامیہ کی تکفیرکرتے ہیں، جو یا تو پروپیگنڈے ہوتے ہیں یا ایسا معاملہ ہوتا ہےجو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ شرعاً وعرفاً مطلوب ہوتا ہے، جیسا کہ وائس آف خراسان نے ۳۹ویں شمارے میں کہا کہ طالبان بین الاقوامی کفری نظام کے کارندے ہیں۔ اب یہ بات حقائق کے منافی، جھوٹا پروپیگنڈہ اور صریحاً باطل ہے۔
امارت اسلامیہ کی قیادت کا انتخاب عالمی نظام اور ان کے طرز و طریقے پر نہیں، جو جمہوریت کے طرز پر ہوتے ہیں، بلکہ یہ انتخاب الحمدللہ مجاہدین کی رہبری شوری (شوری اہل حل وعقد) کی شرعی بیعت کے ذریعے کیا گیا ہے۔
تمام اجتماعی فیصلے اور احکامات پارلیمانی ووٹوں کے بجائے شریعت کی روشنی میں باہمی مشورے سے ہوتے ہیں، عدالتیں فقہ حنفی کی تشریحات کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں، مشاورت کے بعد اہلیت و کارکردگی کی بنیاد اور شرعی حکم کے مطابق تقرر و معزولی کی جاتی ہے، اس حوالے سے کسی جمہوری پارلیمنٹ میں اس پر ووٹنگ نہیں کی جاتی اور نہ ہی اسے منظوری کے لیے کسی جمہوری پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
تعلیمی میدان میں مخلوط نظام کی ممانعت ہے، تعلیمی اداروں میں وہ مضامین نہیں پڑھائے جاتے، جو اسلامی احکام سے متصادم ہوں اورجو اسلام کو نسلِ نو کے سامنے نعوذ باللہ صرف انفرادی معاملے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
معاشرے میں سیکولرازم، لبرل ازم، لادینیت، ریپبلکنزم، بداخلاقی، عصمت فروشی، ہم جنس پرستی، اباحیت اورالحاد کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں پر پابندی ہے، اس جیسی تمام تنظیمیں اور ادارے بین الاقوامی نظام کے مطابق بین الاقوامی سسٹم کا حسن ہیں اورعالمی کفری نظام ایسے معاشرے کو جس میں یہ ادارے سرگرم و فعال ہوں، مہذب معاشرے سے تعبیر کرتا ہے۔
الحمدللہ امارت اسلامیہ دنیا کا سب سے بابرکت اسلامی نظام ہے، جو اس غلاظت سے پاک ہے، یہاں پر ہر تبلیغی جماعت، مدرسے، مرکزِ تعلیم، دعوت و ارشاد اور تعلیمی ادارے بنانے کی اجازت ہے، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں نیکی پھیلائیں اور منکرات و برائیوں کو ختم کریں۔
امارت اسلامیہ کے بابرکت نظام میں تمام خارجہ اور داخلہ پالیسیاں شریعت کی روشنی میں بنائی اور نافذ کی جاتی ہیں، ہمیں کوئی ایسا قانون یا پالیسی نظر نہیں آتی جو شریعت کے خلاف ہو، جہاں تک انتظامی معاملات کا تعلق ہے تو اس میں شریعت کی جانب سے توسیع دی گئی ہے، ان کا طرز و طریقہ کار وقت اور جگہ کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے۔
البتہ انتظامی معاملات میں ایسی صورت اختیار کرنا جو اسلامی ہدایات و تعلیمات سے متصادم ہو، اس کی اجازت نہیں ہے، اس لیے انتظامی معاملات میں بھی ایسی کوئی بات نہیں جو اسلامی ہدایات اور اصولوں سے متصادم ہو۔
اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کی رکنیت شریعت کے دائرے میں رہ کر اختیار کی جائے اوران کی مجالس میں شرکت کی جائے تو اس میں کوئی شرعی حرج نہیں ہے، جائز اہداف و مقاصد کے لیے کفار کے اداروں، انجمنوں اور یونینز میں شامل ہونا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور بہترین کام ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایک مجلس ہوئی اور اس میں کچھ قریشی قبائل نے ایک اتحاد بنا لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچاؤں کے ساتھ اس مجلس میں شریک ہوئے تھے، اس اتحاد کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد بھی اس اتحاد کی تعریف کی اور کہا: اس اتحاد میں شامل ہونا مجھے سرخ اونٹوں یعنی قیمتی اموال سے زیادہ عزیز ہے اور اگر مجھے اس عہد و پیمان کے لیے آج بھی کہیں بلایا جائے تو میں لبیک کہوں گا۔
لہٰذا اس سے واضح ہوتا ہے کہ کافر قوتوں کے ساتھ جائز اہداف کے حصول کے لیے ان کے اداروں میں رکنیت لینا یا ان کی مجالس میں شرکت کرنا جائز ہے، البتہ ان کے ناجائز مقاصد، مطالبات و قوانین قبول کرنا شریعت میں جائز نہیں، امارت اسلامیہ نے اقوام متحدہ یا کسی اور بین الاقوامی ادارے کے ناجائز مطالبات اور اصول کب قبول کیے ہیں؟
کفار سے عام تعلقات رکھنا، جائزکاموں کے لیے ان کے اداروں و مجالس میں شرکت کرنا، نبی علیہ السلام کی سیرت سے ثابت ہے، ’’الرحیق المختوم‘‘ کے مصنف علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقع حلف الفضول في ذي القعدة في شهر حرام، تداعت إليه قبائل من قريش: بنو هاشم، وبنو المطلب، وأسد بن عبد العزى، وزهرة بن كلاب، وتيم بن مرة، فاجتمعوا في دار عبد الله بن جدعان التيمي لسنه وشرفه، فتعاقدوا وتعاهدوا على ألايجدوا بمكة مظلوما من أهلها وغيرهم من سائر الناس إلا قاموا معه، وكانوا على من ظلمه حتى ترد عليه مظلمته، وشهد هذا الحلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال بعد أن أكرمه الله بالرسالة: لقد شهدت في دار عبد الله بن جدعان حلفا ما أحب أن لي به حمر النعم، ولو أدعي به في الإسلام لأجبت”
ترجمه: قابل احترام مہینے ذی القعده میں حلف الفضول کا معاہدہ ہوا، قریش کے چند قبائل جیسے: بنی هاشم، بنی مطلب، بنی اسد بن عبدالعزی، بنی زهره بن کلاب اور بنی تیم بن مرّه نے اس کا اہتمام کیا، یہ لوگ عبدالله بن جدعان تیمی کے گھر میں جمع ہوئے، کیونکہ وہ عمر اور شرف و عزت کی وجہ سے ممتاز حیثیت کا حامل تھا، اس نے تمام لوگوں سے یہ عہد و پیمان لیا: مکه مکرمه میں جو بھی مظلوم ہوگا، چاہے وہ مکے کا رہائشی ہو یا نہ ہو، ہم سب اس کی مدد کریں گے، اسے اس کا حق دلائیں گے، اس اجتماع میں رسول الله صلی الله علیه وسلم بھی تشریف فرما تھے، پھر جب رسول الله صلی الله علیه وسلم رسالت اور پیغمبری سے مشرف ہوئے تو آپ فرماتے: ’’میں عبدالله بن جدعان کے گھر میں ایک ایسے معاہدے میں موجود تھا، جومجھے سرخ اونٹوں (اس زمانے کا قیمتی مال) سے زیادہ پسند ہے اور اگر آج بھی مجھے کوئی اس عہد و پیمان کے لیے بلائے تو میں لبیک کہوں گا‘‘۔
اسی طرح جب قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ ہوئی، اس وقت قبیلہ خزاعہ ایک مشرک قبیلہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف بن گیا اور قبیلہ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا، باقی ماندہ قبائل کو بھی اختیار دیا گیا کہ جس اتحاد میں شامل ہونا چاہیں، ہوسکتے ہیں، جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
ترجمه: قبیلہ خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و پیمان میں داخل ہو گیا اور بنوبکر قریش کے اتحادی ہو گئے، معاہدے میں یہ بات لکھی گئی کہ تمام قبائل کواختیار ہے، رسول اللہ کے حلیف بنیں یا قریش کے اتحادی بن جائیں۔
اس معاہدے کا مطلب یہ تھا کہ قبیلہ خزاعہ قریش اور اس کے اتحادیوں سے تعرض نہیں کرے گا نہ ہی ان کے خلاف لڑنے والوں سے مدد و تعاون کرے گا اور مسلمان بنوبکر و دیگر حلفائے قریش سے تعرض نہ کریں گے، نہ ہی ان کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔
کچھ وقت بعد ایک رات بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا کیونکہ ان کے درمیان دشمنی چلی آرہی تھی، اس حملے میں بنو خزاعہ کے کچھ لوگ مارے گئے، اس حملے میں قریش نے خفیہ طور پر بنو بکر کی مدد کی تھی، چنانچہ بنو خزاعہ نے شعر لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگی اور اپنے عہد و پیمان کو پوراکرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ حملہ قریش کی جانب سے واضح طور پرمعاہدے کی خلاف ورزی تھی، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں اور بالآخر مکے کا محاصرہ اور پھر فتح مکہ جیسی مبین فتح نصیب ہوئی۔
اس ساری بحث کا مقصد یہ تھا کہ کفار سے تعلقات رکھنا نہ کفر ہے نہ ہی حرام، اسی طرح کفار کی جانب سے کسی معاملے میں مسلمانوں کا اچھا تذکرہ کرنا کفر ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔