امارت اسلامیہ کے خلاف داعشی خوارج کے پروپیگنڈے اوراعتراضات کا شرعی جائزہ | نویں قسط

مولوی احمد علی

مظاہرۃ علی المسلمین (کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے میں مدد اور تعاون) کے بارے میں امام محمد رحمہ اللہ رحمہ اللہ کا مذہب:

فقہ حنفی کے مشہور امام، محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ (متوفی 189ھ)، جو مشہور امام اور بہت سے سلف صالحین کے استاد بھی تھے، امام شافعی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا:

"اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ قرآن محمد بن الحسن کی زبان میں نازل ہوا تھا، کیونکہ ان کی فصاحت کی وجہ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں۔”

امام محمد رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف السیرالکبیر کی پانچویں جلد کے صفحہ نمبر ۳۵۴ میں فرماتے ہیں:

بَابٌ، الْعَيْنُ يُصِيبُهُ الْمُسْلِمُونَ – قَالَ: وَإِذَا وَجَدَ الْمُسْلِمُونَ رَجُلًا مِمَّنْ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ عَيْنًا لِلْمُشْرِكِينَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ يَكْتُبُ إلَيْهِمْ بِعَوْرَاتِهِمْ، فَأَقَرَّ بِذَلِكَ طَوْعًا، فَإِنَّهُ لَا يُقْتَلُ، لِأَنَّهُ لَمْ يَتْرُكْ مَا بِهِ حَكَمْنَا بِإِسْلَامِهِ، فَلَا نُخْرِجُهُ مِنْ الْإِسْلَامِ فِي الظَّاهِرِ مَا لَمْ يَتْرُكْ مَا بِهِ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ، وَلِأَنَّهُ إنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى مَا صَنَعَ الطَّمَعُ، لَا خُبْثُ الِاعْتِقَادِ، وَهَذَا أَحْسَنُ الْوَجْهَيْنِ، وَبِهِ أُمِرْنَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ﴾.

وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَطْلُبَنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ فِي أَخِيك سُوءًا وَأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مَحْمَلًا”.

وَاسْتُدِلَّ عَلَيْهِ بِحَدِيثِ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ، فَإِنَّهُ كَتَبَ إلَى قُرَيْشٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَغْزُوكُمْ فَخُذُوا حِذْرَکم.

فَلَوْ كَانَ بِهَذَا كَافِرًا مُسْتَوْجِبًا لِلْقَتْلِ مَا تَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، بَدْرِيًّا كَانَ أَوْ غَيْرَ بَدْرِيٍّ.

وَكَذَلِكَ لَوْ لَزِمَهُ الْقَتْلُ بِهَذَا حَدًّا مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إقَامَتَهُ عَلَيْهِ.

وَفِيهِ نَزَلَ قَوْله تَعَالَى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾.

فَقَدْ سَمَّاهُ مُؤْمِنًا، وَعَلَيْهِ دَلَّ قِصَّةُ أَبِي لُبَابَةَ حِينَ اسْتَشَارَهُ بَنُو قُرَيْظَةَ، فَأَمَرَّ أُصْبُعَهُ عَلَى حَلْقِهِ يُخْبِرُهُمْ أَنَّهُمْ لَوْ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَتَلَهُمْ.

وَفِيهِ نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ﴾

جب مسلمان کسی کافر کا ایسا جاسوس پکڑیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، لیکن کافروں کے لیے جاسوسی کرتا ہے اور اس جرم کا اپنے اختیار سے اقرار بھی کرتا ہے تو وہ قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس نے وہ چیز نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے ہم نے اس کے بارے میں اسلام پر فیصلہ کیا تھا؛ لہذا ہم اسے ظاہراً اسلام سے خارج نہیں کر سکتے جب تک کہ اس نے وہ چیز نہ چھوڑی ہو جس کی وجہ سے وہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ وہ شخص اس جاسوسی پر دنیاوی لالچ اور خواہشات کی بنا پر تیار ہوا ہے نہ کہ عقیدتی خباثت یا فساد کی وجہ سے؛ اس لیے ہم اسے کافر نہیں کہہ سکتے اور یہی حکم ہمارے لیے بھی دیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: "مسلمان اس کی اچھی صورت کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔”

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: "جب تمہارے مسلمان بھائی کی زبان سے کوئی بات نکلے اور اس کا اچھا محمل ہو تو اسے برے محمل پر چسپاں نہ کرو۔”

اس بات پر کہ اس جاسوسی کے عمل کی وجہ سے کوئی شخص نہ کافر ہوتا ہے اور نہ ہی قتل کیا جاتا ہے، استدلال کیا گیا ہے حاطب بن ابی بلتہ رضي الله عنه کی حدیث سے، کیونکہ انہوں نے قریش کو خط لکھا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم پر حملہ کرنے والے ہیں، تو تیار ہو جاؤ اور اپنے آپ کو مسلح کرلو۔

اگر اس جاسوسی اور تعاون کی وجہ سے وہ صحابی کافر ہوچکا ہوتا یا قتل کا مستحق قرار دیا جاتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ چھوڑا ہوتا، چاہے وہ بدری ہو یا غیر بدری؛ کیونکہ کفر ہر شخص کے لیے کفر ہوتا ہے اور کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوتا۔
اسی طرح، اگر اس پر قتل کی حد واجب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حد قائم کرنے میں کوتاہی نہ کرتے، کیونکہ حد اللہ کا حق ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا:

عن الزهري عن عروة عن عائشة أن قريشاً أهمهم شأن المرأة المخزومية التي سرقت فقالوا من يكلم فيها رسول الله {ﷺ} فقالوا: ومن يجترئ عليه إلا أسامة بن زيد حب رسول الله {ﷺ} فكلمه أسامة فقال رسول الله {ﷺ} أتشفع في حدٍّ من حدود الله ثم قام فاختطب ثم قال إنما أهلك الذين قبلكم أنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد، وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها.

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سبحانه وتعالی کا یہ قول نازل ہوا:

﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾

اس آیت میں حاطب بن ابی بلتہ رضی اللہ عنہ کو بھی ایمان والوں میں شمار کیا گیا ہے، حالانکہ انہوں نے کافروں کے ساتھ تعاون کیا تھا، لیکن ان کا ایمان قائم رہا اور وہ کافر نہیں ہوئے۔

مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ تعاون یا اصطلاحی طور پر "مظاہرہ على المسلمين” کے حوالے سے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کی کہانی بھی ایک دلیل ہے، جب بنی قریظہ کے یہودیوں نے ان سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے اپنی انگلی اپنے گلے کی طرف کی، جس سے یہ بات ظاہر کی کہ اگر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت نیچے آ گئے، تو وہ تمہیں قتل کر دیں گے، یہ بھی کافروں کے ساتھ ایک قسم کا تعاون تھا، یعنی انہیں آگاہ کیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر نیچے اتروگے تو وہ تمہیں قتل کر دیں گے۔

اگر بنی قریظہ نیچے نہیں آتے اور جنگ جاری رکھتے تو اللہ اعلم کہ کیا حالات سامنے آتے؟ یہ ایک اہم تعاون اور مدد تھی، اگرچہ انہوں نے اس کا فائدہ نہ اٹھایا۔ اور اسی وجہ سے اللہ سبحانه وتعالی نے یہ آیت نازل کی:

﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ﴾

یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کسی مسلمان کا کافروں کے ساتھ محبت یا تعاون کرنا جو اسلام کی مخالفت کرتے ہوں، وہ صحیح نہیں ہے، چاہے اس تعاون سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

Author

Exit mobile version