امریکی محکمہ انصاف نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ ایک ۲۷ سالہ افغان شہری کو صدارتی انتخابات کے دن حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ جانے سے قبل یہ شخص سی آئی اے کے ساتھ افغانستان میں سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتا تھا اور ستمبر ۲۰۲۱ء میں امریکی انٹیلی جنس ادارے دیگر ہزاروں دیگر جاسوسوں اورجنگجوؤں کے ساتھ اسے بھی افغانستان سے لے گئے تھے۔
این بی سی نیوز کی رپورٹ میں ہے کہ دو امریکی حکام کے مطابق نصیر احمد توحیدی کو ایف بی آئی نے گزشتہ پیر کو اوکلاہوما میں اس وقت گرفتار کیا جب اس نے داعش کے کہنے پر صدارتی انتخابات کے دن لوگوں پر حملہ کرنے کے لیے دو کلاشنکوفیں اور گولیاں خریدی تھیں۔ امریکی محکمہ انصاف نے اپنی پریس ریلیز میں لکھا ہے کہ اسے یہ ہتھیار ایف بی آئی کے ایک خفیہ ملازم نے فروخت کیے تھے۔ این بی سی نیوز نے رپورٹ میں لکھا کہ توحیدی نے گزشتہ مارچ میں داعش کے فنڈ ریزنگ گروپ کو بھی رقم بھیجی تھی۔
ریاست اوکلاہوما کی عدالت کی دستاویزات کے مطابق، توحیدی نے اوکلاہوما میں اپنے سسر کا گھر ایک لاکھ پچاسی ہزار ڈالر میں بیچا اور ۱۷ اکتوبر کو اپنے خاندان کو واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کا خاندان ’’حقیقی اسلام‘‘ کے سائے میں زندگی گذارے۔ (مذکورہ شخص کو افغانستان حقیقی اسلام کا مرکز لگتا ہے جبکہ داعش کے دیگر ارکان اس سرزمین کو دارالکفر کہتے ہیں اور حقیقی اسلام کو نافذ کرنے والوں کو واجب القتل مرتد گردانتے ہیں، اس میں داعشی خوارج کے متزلزل اور کمزور مؤقف اوران کے اقوال وافعال کے مابین تضاد واضح ہے)
واضح رہے کہ داعشی خوارج کی ایک بڑی تعداد نے بھی آن لائن فورمز میں تصدیق کی ہے کہ وہ توحیدی (جس کا عرفی نام ابو عمیر ہے) کے ساتھ رابطے میں تھے اور اسے اپنا ’’وفادار اور مخلص‘‘ دوست قرار دیا۔
سی آئی اے کے سیکورٹی گارڈ نصیر احمد توحیدی کی گرفتاری بذات خود ایک انٹیلی جنس ہتھکنڈہ ہو سکتا ہے، اور یہ داعشی خوارج کے غیر ملکی انٹیلی جنس اداروں سے تعلق کو مزید بے نقاب کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ خوارج کا یہ گروہ کس حد تک انٹیلی جنس کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی مانند استعمال ہو رہا ہے۔