خوارج کا ظہور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ صفین کے سال (۳۷ھ/۶۵۷ء) میں ہوا۔
جنگ کے اختتام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور معاویہ کے درمیان تحکیم (مذاکرات) کا فیصلہ ہوا تو لوگوں کا ایک گروہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فوج سے الگ ہو گیا اور ان دونوں حضرات کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور انسانوں کے درمیان تحکیم قائم کرنا اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے خلاف ہے۔ اسی لیے ان کا نعرہ تھا ’’ان الحکم الاللہ‘‘۔
یہ گروہ "خوارج” کے نام سے مشہور ہوا (خوارج "خروج” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب بغاوت اورعلیحدگی ہے) بعد میں انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف موقف اختیار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان دونوں حضرات کے فیصلہ تحکیم سے جو بھی راضی ہوا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
انہوں نے ایک آزاد و خودمختار حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اورعراق، فارس و دیگر علاقوں میں مسلح بغاوتیں شروع کر دیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھی ان کی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا، بالآخر خوارج کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔
۳۸ ہجری قمری میں نہروان کے علاقے میں خوارج کی ایک بڑی جماعت جمع ہوئی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے جنگ کی، جسے جنگ نہروان کہتے ہیں، اس جنگ میں بہت سے خوارج مارے گئے اور اس فتنے پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا لیکن باقی چھوٹے گروہوں کی شکل میں مسلسل سرگرم رہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خارجیوں کی پہلی بغاوتوں کو کچل دیا، لیکن خوارج مکمل طور پرختم نہیں ہوئے، ان کی سرگرمیاں اموی خلافت میں بھی جاری رہیں، یہ لوگ اموی حکمرانوں کے سخت مخالف تھے۔
اموی خلافت میں خوارج نے مختلف علاقوں میں، خاص طور پر عراق، فارس اور جزیرۃ العرب میں اموی خلفاء کے خلاف بغاوتیں کیں۔ خوارج کی دلیل یہ تھی کہ اموی حکمران ظالم اوراسلام کی اصل روح سے برگشتہ ہوچکے ہیں۔
خوارج اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان اور حجاج بن یوسف کے دور میں خاص طور پر سرگرم تھے، حجاج بن یوسف اموی خلافت میں ایک اہم گورنر اور کمانڈرتھے، انہوں نے کئی بار خوارج کے خلاف جنگیں لڑیں، اور نہیں تہہ تیغ کیا۔
عباسی خلافت کے ابتدائی سالوں میں خوارج خاص طور پر دور دراز علاقوں میں سرگرم رہے، انہوں نے عباسی حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں شروع کر دیں اور اسلامی خلافت کے استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔
عباسی خلفاء کی کوشش تھی کہ خوارج کے باغی گروہوں کو ختم کردیں، لیکن خوارج ایک طویل عرصے تک ایک سنگین اور خطرناک مسئلہ رہے، اس وقت عراق، جزیرہ نما عرب، یمن، فارس اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے خلاف کئی بار بغاوتیں کیں۔
خلافت عثمانیہ میں، خوارج اس حالت میں نہیں تھے، جس طرح ابتدائی صدیوں میں سرگرم تھے، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی اورعسکری طاقت کم ہوتی گئی اورعالم اسلام میں ان کا اثر و رسوخ بہت محدود رہا۔
خلافت عثمانیہ کے دوران یہ ایک اہم سیاسی گروہ کے طور پر اپنی اہمیت کھو چکا تھا، اس دور میں اہم مذہبی اور سیاسی چیلنج سنی شیعہ تنازعات، صفوی عثمانی دشمنی اور اندرونی اصلاحات اور جدیدیت کے مطالبات تھے۔ خوارج کے فتنے جیسے مسائل نہیں تھے۔
خوارج کے ہم خیال لوگ، دورافتادہ علاقوں اور چھوٹی جماعتوں کی شکل میں موجود تھے، لیکن خلافت عثمانیہ کے بڑے سیاسی اورمذہبی جغرافیہ میں ان کا کوئی خاص کردارنہیں تھا۔