صبح کی دھیمی اور تازہ ہوا تھی، اعتماد و اطمینان نے تمام شہر میں اپنے پر پھیلا رکھے تھے، قرطبہ کے خوبصورت محلات پر سنہری کرنیں پڑ نے لگیں اور شہر کی خوبصورتی دوچند ہو گئی۔ مساجد کے میناروں سے خطیبوں کے خطبوں اور تکبیرات کی آوازیں گونجنے لگیں۔ قرطبہ کی بڑی مسجد کی جانب لوگ گروہ در گروہ جمع ہونے لگے اور مسلمانوں کے جسموں سے اندلس کے عطر کی مہک فضا کو معطر کرنے لگی، نماز اطمینان اور سکون کے ساتھ مکمل ہوئی۔
خطیبوں نے اپنی مضبوط اسلامی حکومت کی بقاء اور خلیفہ حاجب منصور (رحمہ اللہ ) کے لیے رب تعالیٰ کے حضور ایسے وقت میں دعا کی جب خلیفہ اپنی فوج کے ساتھ جنگ کے لیے گیا ہوا تھا اور مسلمانوں نے دعا پر آمین کہا۔
لوگ مسجد سے باہر نکلے، اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ گھوڑوں کے پیروں کی گرد بلند ہو رہی ہے اور ان کے ٹاپوں کی آواز کانوں میں پہنچ رہی ہے۔ گھوڑے پہنچ گئے، خلیفہ منصور اور اس کے ساتھ اسلامی لشکر جنگ کی گرد میں اٹا اور تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ منصور نے چاہا کہ گھوڑے سے اتر آئے کہ اچانک ایک عمر رسیدہ عورت سامنے آئی، اور منصور سے کہا:
اے منصور!
سب لوگ عید منا رہے ہیں اور خوش ہیں، لیکن مجھے کوئی خوشی نہیں محسوس ہو رہی اور میں رو رہی ہوں۔
منصور نے پوچھا: کیا بات ہے؟
عورت نے جواب دیا:
میرے بیٹے کو قلعہ رباح (طلیطلہ اور قرطبہ کے درمیان ایک علاقہ) میں دشمن نے قید کر لیا۔
منصور نے فورا اسلام کے سرفروش جانبازوں کو حکم دیا کہ گھوڑوں سے اتریں نہیں اور رباح کی جانب روانہ ہوں!
منصور اس علاقے میں پہنچا اور دشمن کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فتح نصیب کی، مسلمان قیدی آزاد ہو گئے اور اس بوڑھی عورت کا بیٹا بھی صحیح سلامت واپس پہنچ گیا۔
مصادر:
- سیر اعلام النبلاء
- تاریخ ابن الخلدون