ترک میڈیا نے خبر جاری کی ہے کہ ایک ترک شہری کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب علاقے میں پاکستانی حکام نے گرفتار کر کے ترک سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔
گرفتار فرد کا نام ازگور التون بتایا جا رہا ہے اور ذرائع کے مطابق وہ داعش خراسان کے اہم ذمہ داران میں سے ایک تھا۔
المرصاد کو ذرائع نے خبر دی ہے کہ التون ۲۰۱۸ء میں افغانستان آیا اور داعشیوں کے ساتھ شامل ہوا، اس کے ایک سال بعد گرفتار ہو گیا اور کابل کی فتح تک جیل میں رہا لیکن فتح کے وقت جب جیلیں ٹوٹیں تو یہ بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق ۲۰۲۱ء میں جیل سے رہائی کے بعد یہ دوبارہ سرگرم ہو گیا اور ۲۰۲۳ء میں جب افغانستان میں امارت اسلامیہ کی کاروائیوں میں داعش کے رہنماؤں اور افراد کو شدید نقصان پہنچا تو یہ بلوچستان فرار ہو گیا۔ ازگور التون داعشی صفوں میں ابو یاسر الترکی کے نام سے مشہور تھا۔
ایک سکیورٹی ذریعے نے المرصاد کو بتایا کہ بلوچستان میں التون بنیادی طور پر آزربائیجانی اور ترک شہریوں کو داعشی صفوں میں بھرتی کرنے اور مالی امداد جمع کرنے میں سرگرم تھا۔
اس کی کوششوں سے داعش میں شامل ہونے والے بعض آذربائیجانی شہری اپنے ملک میں گرفتار ہوئے، جبکہ کچھ دیگر بلوچستان میں گرفتار ہونے کے بعد آذربائیجان کے حوالے کر دیے گئے۔ کچھ غیر ملکی شہری جو التون کے ذریعے بلوچستان بلائے گئے، مستونگ میں داعشی مراکز پر کیے جانے والے آپریشنز میں ہلاک ہوئے، جن میں تقریباً ۳۰ داعشی جنگجو مارے گئے تھے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان میں ابو یاسر اور اس سے قبل شریف اللہ اور دیگر داعشیوں کی گرفتاری اور مستونگ میں ان کے کھلے مراکز پر حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ داعش خراسان کا مرکز بلوچستان منتقل ہو چکا ہے جہاں سے ان کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور ترتیبات کی جاتی ہیں۔