بین الاقوامی برادری کے ساتھ امارتِ اسلامی کے تعلقات! دوسری اور آخری قسط

ولید ویاړ

پوری تاریخ میں کوئی ایسی مثال موجود ہے کہ کوئی قومی حکومت عوام کی مرضی اور حمایت کے بغیر مکمل اقتدار حاصل کر چکی ہو؟ افغانستان میں امارتِ اسلامی کی دوبارہ حاکمیت کا اصل راز یہی تھا کہ یہ عوام کی خواہش تھی؛ وہی عوام جو جمہوریت کے کھوکھلے نعروں، مغرب نواز لیڈروں اور ان کے پشت پناہ بیرونی قابض افواج سے تنگ آ چکے تھے اور ایک ایسے موقع کے متلاشی تھے جہاں وہ اپنے دین اور قومی ثقافت کی آغوش میں ایک اسلامی حکومت حاصل کر سکیں۔

اور ایسے قائدین کے حامل ہوں جو اسی سرزمین، مسجد اور حجرے کے باسی ہوں، نہ کہ امریکا، یورپ یا دیگر بیرونی ملکوں کے پاسپورٹ رکھنے والے، کوٹ پتلون پہنے ہوئے مغرب ‌زدہ ماہرین اور ریٹائرڈ افسران، جنہوں نے اپنی اصل صلاحیتیں دوسروں کی خدمت میں صرف کی ہیں اور اب ریٹائرمنٹ کے عمر میں اپنے خاندان سے دُور افغانستان میں ’’خدمت‘‘ کے نام پر صرف چوری اور کرپشن کے لیے آتے ہیں۔

آج کی دنیا کی اکثر حکومتیں جو عالمی اسٹیجوں اور اجلاسوں میں اپنی قومی مقبولیت اور جواز کے نعرے لگاتی ہیں، دراصل اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں جو ان کے اقتدار کی بنیاد میں ایک تاریخی طعنہ اور حقیقت کی صورت میں موجود ہے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر حکومتیں آمرانہ ہیں اور کسی غیرملکی حمایت یا مشن کے ذریعے اقتدار میں آئی ہیں، انہیں کسی پروجیکٹ اور منصوبے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اور سلامتی کونسل افغانستان کی امارتِ اسلامی کے بارے میں بھی ایسا ہی منفی سوچ رکھتے ہیں، کیونکہ یہ اقتدار ایک ایسی عوامی تحریک کے نتیجے میں قائم ہوا ہے جو ان کے وضع کردہ سفارتی اصولوں کے برخلاف ہے۔

افغانستان میں موجودہ امن، سماجی استحکام اور وہ جاری تعمیراتی منصوبے دیکھے جائیں جو خالص قومی بجٹ سے مکمل ہو رہے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب بنیادی کام کسی قومی حمایت یا داخلی جواز کے بغیر انجام پائے ہوں؟

یہاں ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ ہے عالمِ اسلام کا رویہ۔ امارتِ اسلامی کی کامیابی نے ان کے چہروں سے بھی وہ نقاب ہٹا دیا ہے، کیونکہ ان سب کی سیاست امریکہ اور مغرب کے اشاروں پر گھومتی ہے۔ اسی لیے آج تک انہوں نے امارت کو تسلیم کرنے کی معمولی سی بھی کوشش نہیں کی اور وہ اس سیاسی اور معاشی خوف کے سائے تلے جی رہے ہیں کہ اگر اُن کے اصولوں کی خلاف ورزی کریں، تو ان کی حکومتیں اور مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ حالانکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ افغانستان کا موجودہ نظام ایک مثالی اسلامی نظام ہے، جو امن، عوامی تائید اور ملی مشروعیت پر استوار نظام، حقیقی مثالی اور قابلِ تقلید نظام ہے۔

افغان عوام گزشتہ چالیس برسوں سے جنگ کے خاتمے اور ہمہ ‌گیر امن کے متمنی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا امارتِ اسلامی کے قیام کے ذریعے پوری کر دی۔ اب چاہے دنیا کتنی ہی دوغلی پالیسی اپنائے اور اپنے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کرے، وہ اپنے ماضی اور مستقبل کے دامن پر سیاہ دھبے ہی بڑھاتی جا رہی ہے۔ لیکن افغان قوم کی آرزو پوری ہو چکی ہے۔ اگر بین الاقوامی قبولیت کا مطلب یہ ہو کہ ایک بار پھر ہماری قومی خودمختاری، حتیٰ کہ ذاتی حریم تک پر سوالیہ نشان لگایا جائے، اور افغانستان کو جنگی و سیاسی تجربہ ‌گاہ میں بدلا جائے، تو ایسے بین الاقوامی قبولیت و شناخت پر لعنت ہو۔

ہمیں اپنے قومی جواز کا فائدہ خود حاصل ہو رہا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم بین الاقوام شرارتوں سے محفوظ رہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ باقی رہا وہ بین الاقوامی شناخت جو دیگر اسلامی ممالک کو دی گئی ہے، تو اگر وہ آج ہمیں نہ مل سکی، کل ضرور دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ ہم نے پہلے ہی خطے اور ہمسایہ چالیس سے زائد ممالک کے ساتھ سیاسی روابط اور سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں، اور یہ دائرہ مسلسل وسیع ہورہا ہے۔

گزشتہ تین برسوں میں علاقائی اور ہمسایہ ممالک کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ امارتِ اسلامی کی خارجہ پالیسی متوازن، معیشت‌ مرکوز، حقیقی تعاون اور عدم مداخلت پر مبنی ہے۔ یہ نہ صرف ان کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ان کے قومی و بین الاقوامی مفادات کے تحفظ کا بھی ذریعہ ہے۔

لہٰذا پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہمارے لیے سب سے اہم اور مفید کام یہ ہے کہ اس پیدا شدہ قومی وحدت کو مضبوط بنایا جائے اور اسی عوامی حمایت پر قائم رہا جائے جو دین ‌دوست اور وطن‌ پرست عوام نے امارتِ اسلامی کو بخشی ہے اور ہر اقدام میں اس کی دلیرانہ حمایت بھی کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر بین الاقوامی رسمیت کی قیمت ہمیں اپنی قومی مفاہمت، استحکام اور شرعی جواز کی قربانی دے کر چکانی پڑے، تو کوئی بھی صاحبِ عقل، جو افغانستان کی معاصر تاریخ اور اس پیچیدگیوں کا ادراک رکھتا ہو، ایسے نقصان دہ سودے پر راضی نہیں ہو سکتا۔

Author

Exit mobile version