جھوٹی خلافت کے لیے نوجوانوں کو مائل و بھرتی کرنے کی خاطر داعش کے حربے

ابو حذیفہ

داعش کسی فکر و نظریے سے عاری نوجوانوں سے اپنے اہداف کے حصول کے لیے بہت مؤثر انداز میں فائدہ اٹھاتی ہے اور اس سلسلے میں مختلف حربے استعمال کرتی ہے۔ ذیل میں ایسے کچھ اہم طریقے بیان کیے جا رہے ہیں جو داعش لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور پھر انہیں منظم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے:

۱۔ متشدد پراپیگنڈہ

داعشی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مدد سے اپنا متشدد پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ وہ ویڈیوز، آڈیو بیانات، اور تحاریر کے ذریعے اپنے متشدد نظریات پھیلا کر لوگوں کو اپنی کاذب خلافت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ظلم و جبر اور جہاد کے حوالے سے بے بنیاد باتیں بناتے ہیں تاکہ ان کی مدد سے کوئی نظریہ نہ رکھنے والے لوگوں کو اپنی جانب مائل کر سکیں۔

۲۔ اسلامی خلافت کی جھوٹی تصویر

داعش کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اپنے پراپیگنڈہ میں اپنے زیر تسلط علاقے ایسے ظاہر کرے کہ جیسے یہاں سب کچھ اسلامی اصولوں کے عین مطابق جاری ہے اور لوگ پر امن اور راحت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

وہ سکولوں، ہسپتالوں اور بازاروں کی ویڈیوز نشر کرتے ہیں، تاکہ ظاہر کریں کہ انہوں نے ایک مکمل اور عادلانہ خلافت قائم کر رکھی ہے۔ مثلا داعش نے ’’خلافت میں روزمرّہ کی زندگی‘‘ کے نام سے ویڈیوز نشر کیں، جن میں دکھایا گیا کہ کیسے لوگ ایک پر امن فضا میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی۔ یہ نشریات غیر ملکی مسلمانوں کو اپنی جھوٹی خلافت کی جانب ہجرت کروانے کی خاطر نشر کی جاتی ہیں۔

حالانکہ درحقیقت سب کچھ اس سے الٹ چل رہا ہو گا، ظلم، بد امنی اور ناانصافی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہو گی، اور بسا اوقات تو یہ تصاویر بالکل جعلی اور فوٹوشاپ کے ذریعے بنائی گئی ہوں گی۔

۳۔ نظریاتی تربیت

داعش کی فکر یا نظریاتی تربیت دین میں تشدد کی بنیاد پر قائم ہے۔ وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ دینی موضوعات میں تحریف کریں اور اپنے نظریات کو اس طرح سے پیش کریں کہ اس سے ایک حقیقی اسلامی خلافت کے قیام کی کوششیں نظر آئیں۔ وہ قرآن کریم اور احادیث کی غلط تفاسیر و تاویلات کرتے ہین تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو قائل کر سکیں کہ وہ بھی اس کاذب خلافت میں شامل ہو جائیں۔

۴۔ معاشرتی دباؤ اور دھمکیاں

بعض علاقوں میں داعشی لوگوں کو بزور یا دباؤ ڈال کر اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف طریقوں سے ان کے اہل خانہ کو ڈراتے دھمکاتے ہیں ان کے ساتھ سخت رویہ اور برتاؤ رکھتے ہیں۔ اسی طرح معاشروں میں خود و ہراس اور دہشت سے کام لیتے ہیں تاکہ لوگ انہیں کے ظلم و استبداد سے نجات کی خاطر انہیں کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔

۵۔ جذبات سے کھیلنا

داعشیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کی ناامیدی اور جذباتی حالت سے فائدہ اٹھائیں۔ ظلم اور نا انصافی کے خاتمے کے نام پر وہ ان سے جنگ کے حوالے سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں، اسی طرح اپنے پراپیگنڈہ میں نوجوانوں کو شہادت کے نام پر جنت کے وعدے دیتے ہیں۔

وہ نوجوانوں کے سامنے یہ جھوٹی تصویر پیش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں، ان کے ساتھ مل کر جنگ کریں، اور ان کے لیے خود کش حملہ کریں تو وہ شہید ہو کر سیدھا جنت میں جائیں گے اور ان کے اہل خانہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بے حساب انعامات نازل ہوں گے۔

۶۔ مالی محرکات

داعش کی مالی امداد اور اس کے وعدے ایسے لوگوں کو مائل کرتے ہیں جو معاشی مشکلات کا شکار ہوں یا بے روزگار ہوں۔ یہ گروہ لوگوں کو اچھی روزی، ان کے خاندان کے ساتھ تعاون، اور بظاہر بہترین زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔

۷۔ پراپیگنڈہ میں بچوں کا استعمال

داعش اپنے پراپیگنڈہ میں بچوں کو بھی استعمال کرتی ہے، جنہیں وہ ’’خلافت کے شیر‘‘ کے نام سے مخصوص رول دیتے ہیں۔ وہ بچوں کو جنگی تربیت کے مراکز میں دکھاتے ہیں اور انہیں ہتھیاروں اور عقیدے کی تربیت دتے ہیں، تاکہ نظریاتی جنگ دورِ حاضر کے بچوں اور آنے والی نسلوں کو اس طریقے سے منتقل کی جا سکے۔

اگر ہم صحیح معنوں میں داعش اور اس کی فکر کا مطالعہ کریں، تو ہم بلاشبہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ داعش کا مقصدِ اصلی اسلامی احکامات کا نفاذ نہیں بلکہ انہیں بدنام کرنا اور کفار کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ اور ہر جگہ اسلامی شریعت کی غلط تشریح پیش کرتے ہیں، بالخصوص جہاد، خلافت اور شرعی حدود کے حوالے سے۔

وہ جہاد کے نام پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور اپنے مظالم کو مذہبی حیثیت میں جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام تو امن، بردباری اور انصاف کا دین ہے۔

اسی طرح داعشیوں کا دعویٰ ہے کہ دورِ حاضر میں ان کی منزل، راستہ، ہدف و حکمت عملی صرف شرعی اسلامی خلافت کا قیام ہے، لہذا اسی بنیاد پر جو بھی ان کے ساتھ بیعت نہیں کرتا یا ان کی مخالفت کرتا ہے تو اسے کافر سمجھتے ہیں اور انہیں موت کی سزا دیتے ہیں حالانکہ اس طرح کی تکفیر کا نظریہ دینِ اسلام کی بنیادوں سے متصادم ہے۔

مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ داعش اور اس جیسے گروہ اسلام کے حقیقی نمائندے نہیں اور نہ ہی قیامِ خلافت کے مقصد سے اٹھے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس قسم کے تحریف شدہ نظریات سے خود کو بچائیں، علم، سمجھ بوجھ اور دینی ہدایات کے ذریعے خود کو مضبوط کریں تاکہ داعشی خوارج کے اس جیسے بے جا پراپیگنڈہ سے متاثر نہ ہوں اور ان کے جھوٹ کا شکار نہ بن سکیں۔

تعلیم اور سمجھ بوجھ ان متشدد نظریات کے خلاف بہترین ہتھیار ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ دینی علماء اور معتبر ذرائع سے اپنی معلومات حاصل کریں اور اس طرح کے اور دیگر ہر قسم کے متشدد افکار اور اعمال کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔

Author

Exit mobile version